اللہ طارق جمیل کے لئے آسانیاں پیدا کرے


محترم طارق جمیل بہت مشکل میں ہیں۔ مقدمہ ایسا کمزور ہے کہ منصف سے نظریں چرا کر اپنے ہی موکل سے داد چاہتے ہیں۔

چاہ اور بیزاری کے چاہ ماروت میں جھولتے حضرت، زمین پر اپنی نارسائی کی خجالت سے گریزاں، فلک کی پہنائیوں میں اپنے ترسیدہ تخیل کا پیوند ٹانکتے ہیں۔ ہجوم طفلاں کی آرزوئے خام کو مہمیز کرتے محترم کے بیان کا مرکزی خیال تو عورت ہی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ دنیا میں رہنے والی انہیں گناہ گار، قابل تعزیر اور بے حیا نظر آتی ہے۔ مٹی کی بنی ہوئی اس دنیا کی میلی کچیلی عورت ( بقول ان کے) انہیں قبول کرنا گوارا نہیں، وہ تو عود ومشک وعنبر سے بنی، سولہ سنگھار کیے، عشوے وغمزے کرتی جنت کی لڑکی خواب میں دیکھا کرتے ہیں اور حواس کھو بیٹھتے ہیں۔

سو چاہے کچھ بھی ہو، ذکر چاہیے اس پری وش کا ہر وقت، ہمہ دم!

ان کی میٹھی میٹھی ڈانٹ، شرمیلی مسکراہٹ اور نم آنکھوں والے بیانات سن سن کے ہم تو مانو دن بدن مغرور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی اپنے آپ پہ رشک آتا ہے اور کبھی پیار۔ پھر بے یقینی سے اپنے آپ کو آئینے میں تکتے ہیں کہ کیسی چنگیز خانی صلاحیتں ہمیں ودیعت ہوئی ہیں کہ ذرا جو آنچل سر سے سرکا کے زلف بام پہ لہرا دیں تو نہ صرف دامن تقوٰی پہ بجلیاں گریں گی بلکہ  زاہدان خود آرا کی ریاضت بھی بھنگ ہو جائے گی۔ دھرتی دھڑک اٹھے گی، زعم کے سنگی بت اوندھے منہ گریں گے۔۔۔ اور ہم تماشا دیکھیں گے۔

آنچل کی جھلک سے بڑھ کے اگر کبھی ہم نے مغربی لباس پہن لیا تو کہیں سیلاب و طوفان کا خطرہ اور کہیں قحط سالی کا ڈر، پڑھنے لکھنے کا نام لیا تو مساجد ویران ہونے کا خدشہ، غیر مردوں کے ساتھ کام کر لیا تو برائی کا بازار گرم ، سانپ کی طرح رینگتی انگلیوں اور گرسنہ نگاہوں کے خلاف میرا جسم میری مرضی کی بے حیائی کر لی تو کرونا کا عذاب تو آ ہی گیا جس نے دنیا بھر میں جھاڑو پھیر دی۔

یقین جانیے ہم تو سر فخر سے بلند کیے نازاں پھرتے ہیں کہ ہماری طاقت، ہماری بے حیائی کائنات کو درہم برہم کرنے میں اس قدر دخیل ہے جسے مولانا کی تمام تر روحانیت ، پاکیزگی اور عبادات روک ہی نہیں پاتیں۔ آخر میں انہیں پھر تسبیح پھیرتے صادق و امین کے پہلو میں بیٹھ کے ہم بے حیاؤں سے منت و التجا کرنی پڑتی ہے کہ میری قوم کی بیبیو، خدا کے لئے حیا کرو، باہر بے پردہ نکل کے مجھ جیسوں کا امتحان نہ لو اور نہ ہی قدرت کو ناراض کرو۔

دیکھیے نا کہتے تو وہ درست ہیں!

دنیا بھر میں لاکھوں لوگ مر گئے ہماری وجہ سے، دنیا کی معیشت تباہ ہوگئی ہم ذمہ دار، ہمارا ایمان دار معصوم وزیراعظم پریشان ہمارے کارن۔ کتنی بری ہیں ہم پاکستانی عورتیں، اپنی بے حیائی کی خاطر دنیا اجاڑ دی۔

سو کہیے کہیے، ہمیں برا کہیے!

ایک اور بات بھی ہمیں حیران کرتی ہے کہ آخر دنیا بھر کی میڈیکل یونیورسٹیاں پاکستانی عورت کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتیں؟ کچھ تحقیق تو کریں کہ جو کام مغرب کی عورت ننگ دھڑنگ ہو کے نہیں کر پائی وہ پاکستانی عورت نے نقب کی جنبش خفیف سے کر دکھایا ۔

ویسے عورت پر یہ الزام تراشی کچھ ایسی نئی بات نہیں۔ زمانه قدیم سے مختلف مذاہب اور معاشروں کے پیشوا اسی ڈگر پہ چلے ہیں۔ بابا آدم کے خلد سے نکلنے کا الزام اماں حوا کی نادانی کے سر ہی منڈھا جاتا ہے جنہوں نے معصوم مرد کو بھٹکا دیا۔ صحیح تو ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو طارق جمیل اور حواری جنت میں ہی رہ رہے ہوتے نا، دن عید اور رات شب بارات ہوتی، اس کورونا کا عذاب تو نہ دیکھنا پڑتا۔

پھر بھیا قابیل بھی ایک عورت کی وجہ سے بھائی ہابیل سے بھڑ بیٹھے اور بیٹھے بٹھائے اماں حوا کے گھر میں بربادی کی نیو ڈال دی۔ ہائے ری عورت تیرا ستیا ناس!

قرون وسطی میں مغرب کے پادری کسی بھی ناپسندیدہ عورت کو چڑیل ہونے کے شک پر “وچ ہنٹ” کی آزمائش سے گزارتے تھے۔ پنجرے میں جنگلی جانوروں کے آگے زندہ ڈال دیا جاتا، بھڑکتی آگ میں پھنکوا دیا جاتا یا پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگانے کو کہا جاتا۔ قسمت کے پھیر سے بچ جانے والی چڑیل ثابت ہو جاتی جس کا مقدر ہر حال میں موت ہوتا۔ جو اس مشق ستم میں جان کی بازہ ہار جاتی، اسے چڑیل ہونے کے الزام سے نجات مل جاتی۔ گویا چت بھی میری اور پٹ بھی۔ ہر دو صورتوں میں عورت کو ان پادریوں کے ہاتھوں جان سے ہارنا پڑتا جن کی عیاشی کی رنگین داستانیں ہر چرچ کے گوشے گوشے میں کل بھی لکھی تھیں اور آج بھی لکھی جا رہی ہیں۔ ہمارے خطے کا مولوی بھی اس ضمن میں کسی پادری سے کم نہیں۔

کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ہم بے حیا عورتوں کی وجہ سے عالمی وبا تو آگئی۔ خدا جانے ازل سے ملاؤں کی پسندیدہ علت مشائخ سے قیامت کب ٹوٹے گی؟ طارق جمیل اپنے ہم مشربوں کے لئے زبان کب کھولیں گے؟ کب مسجد کے منبر پہ بیٹھ کے اپنے ساتھیوں کو اپنی دلگیر آواز میں سمجھائیں گے کہ خدارا ننھے فرشتوں پہ ظلم خدا کے قہر کو آواز دے سکتا ہے۔

میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ ہم عورتوں کی بے حیائی سے برافروختہ ہونے والے طارق جمیل کیا کبھی کسی ایسے جلوس کی قیادت کریں گے جو ننھی بچیوں کے ریپ اور قتل کے خلاف نکالا گیا ہو۔ وہ تمام عورتیں جو جلا دی جاتی ہیں، ونی ہوتی ہیں، اغوا ہوتی ہیں، کیا اس کمتر مخلوق پہ ہونے والے ظلم کے خلاف طارق جمیل اپنی زبان مبارک کو تکلیف دیں گے؟ کیا اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی تلقین کریں گے؟

طارق جمیل کے کرونا کو ہم بے حیا عورتوں کے سر منڈھنے پر ایمان دار کی خاموشی اس بیان سے متفق ہونا ظاہر کرتی ہے۔ صادق اور امین خود گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے، زندگی کی جی بھر کے رنگینیاں سمیٹ چکے، لیکن ان کا تصدیق شدہ اعلی کردار انہیں اتنی جرات نہ دے سکا کہ اپنے کئے دھرے کی ذمہ داری کا بار ایسے کسی کٹہرے میں اٹھا سکیں جسے اقتدار کی نیم تاریک غلام گردشوں میں گٹھ جوڑ کی بیساکھیوں پر کھڑا نہ کیا گیا ہو۔

طارق جمیل کا اتنے وثوق سے کورونا کو ہم بے حیا عورتوں کے گلے ڈالنا ایک سوال کا متقاضی ہے۔ وہ دنیا تخلیق کرنے والا کیا صرف مردوں کا خدا ہے، جن کی ہر طرح کی جنسی بے راہ روی، ظلم و تشدد، ڈاکہ و قتل اور ہر طرح سے دنیا کو بدصورت بنا دینے کے باوجود کوئی وبا نہیں آتی؟

 کیا طارق جمیل کا اللہ سے براہ راست خط و کتابت کا سلسلہ ہے جس میں انہیں پاکستانی عورتوں کو لعنت و ملامت کرنے کی عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

طارق جمیل صاحب، مانا آپ کی افسانہ طرازی اور داستان گوئی کی صلاحیتیں بے مثال ہیں لیکن ڈریے اس دن سے جب ہم بے حیا عورتیں اللہ کے حضور پیش ہو کے آپ سے ان سب باتوں کا ثبوت مانگیں گی۔

کوئی کہانی سوچ رکھیے ابھی سے! اللہ آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments