کیا مولانا صاحب مزید کچھ سرنڈرز کریں گے؟


کوئی مانے نا مانے یہ ایک حقیقت ہے کہ معافی مانگنا ایک مشکل کام ہے اور دنیا کی ریت و رواج کے مطابق مشکل کام سرانجام دینے والا شخص ہی بڑا انسان کہلاتا ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اجڑے چمن کے ہر دلعزیز مولانا صاحب کا میڈیا کے سامنے سرنگوں کرنا بے شک ایک بڑے شخص کا بڑا کام تھا۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ اس سرینڈر نے مولانا صاحب کے قد کاٹھ پر مزید کتنا اضافہ کیا، لیکن اس نے میڈیا کو ضرور آکسیجن لگا دیا ہے۔ یہ مولانا صاحب کی معافی کی ہی تاثیر تھی کی اس نے میڈیا کے مردہ جسم میں لوگوں کو زندگی کی ایک رمق دکھا کر ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ اب ہمارے مولانا تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے کہ کس طرح ان کی لوگوں کے ایمان بچانے کی کاوش ”ازار بند“ کا کام کرتے ہوئے میڈیا کی کھسکتی عزت کو بچا گئی۔

مولانا صاحب کے لئے ممکن ہو تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنا دل مزید بڑا کرتے ہوئے ان لوگوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھیں جو شعوری یا لاشعوری طور پر ان کی زد میں آ کر رگڑا کھا گئے ہیں۔ ان کو سب سے پہلے تو فرداً فرداً ان حقیقی ایمانت داروں اور دیانت داروں سے معافی تلافی کے لئے رجوع کرنا چاہیے، جن بچاروں کی اس اچھی عادت کا سہرا ایک ایسے حاکم کے سر پر باندھنے کی کوشش کی گئی جو ”دولہا“ بننے کا نا تو متمنی تھا اور نا ہی مستحق۔

اب ایمان دار لوگ سرعام نکلتے ہوئے صرف اس لئے ہچکچاتے ہیں، کہیں انہیں مولانا صاحب کے دریافت کردہ ایمانداروں کی ہی مشاہبت ہی نا مل جائے۔ ویسے تو ایسے قلیل لوگوں کو اتنی بڑی آبادی میں ڈھونڈ نکالنا نا صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے، تو کیوں نا مولانا صاحب کام کو آسان کرتے ہوئے ایک ساتھ ہی ان 22 کروڑ عوام کی دل آزاری کا مداوا کرنے کی کوشش کریں جن پر انہوں نے جھوٹا ہونے کی تہمت لگا کر سرعام رسوا کیا۔ مانا کہ یہ 22 کے 22 کروڑ برحق نہیں ہو سکتے، لیکن جن دو افراد کو آپ نے ایک ٹالک شو میں سچ کا پیکر ثابت کیا اگر وہ سچے ہونے کے اصول و ضوابط پر پورا اترتے ہیں تو ان 22 کروڑ افراد کے گرد جھوٹے ہونے کا دائرہ تنگ کرنا بلاشبہ زیادتی ہے۔

ان 22 کروڑ افراد کے سامنے سرینڈر کرنے کے بعد ان میں ہی شامل 10 کروڑ 64 لاکھ 49 ہزار 322 مرد آپ کی ایک اور معافی کے مستحق ہیں کیونکہ آپ نے خواتین کے لباس میں ویکسین ایجاد کر کے ان کی مردانگی کو بھرے بازار میں للکارا ہے۔ مرد حضرات مایوس ہیں کہ آپ کے اندر کا چھپا رستم تو حقوق نسواں کا چیمین نکلا، کیا ہی اچھا ہوتا آپ مردوں کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے عذاب کا راستہ مردوں کی بے حیائی سے نکالتے؟ مردوں کی حق تلافی بھی نا ہو پاتی اور خواتین کا ستر بھی آپ کے لعاب کے اصراف سے بچ جاتا۔

مولانا صاحب آخر میں امت مسلمہ اپنے آخرت کو پرآسائش رکھنے کے لئے آپ کو خدا کا واسطے دیتے ہوئے ان سو جوڑوں میں نظر آنے والی حوروں کے سامنے بھی سرینڈر کرنے کی درخواست کرتی ہے، جو صرف اس لئے دلبرداشتہ ہیں کہ آپ کے اندھا دھند ایمانداری کے سرٹیفیکیٹس نے ان پر کام کا بوجھ بہت بڑھا دیا ہے۔

مولانا صاحب اب قوم کی دنیا اور آخرت کے معاملات آپ کی مزید کچھ معذرتوں ہی پر منحصر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments