مولانا طارق جمیل کے نام ایک بے حیا عورت کا خط


مولانا صاحب
اسلام علیکم

امید ہے کہ آپ اپنی دعا میں مجھ سمیت پاکستان کی تمام عورتوں کو بے حیا قرار دینے کے بعد بہت زیادہ خیریت سے ہوں گے ۔ میری خیریت آپ کو کیا نیک مطلوب ہو گی کہ میں تو وہ باحیا عورت نہیں جس کے نمبر کے لیے آپ کی ٹیم نے دن رات ایک کیا۔ جس کے رونے نے آپ کو بے چین کر دیا۔ سو کہنا یہ ہے کہ میری طبیعت تو اس دن سے خراب ہے۔ جس دن میں نے یہ سنا کہ آپ نے کہا کہ میرے دیس کی بیٹیوں کو کون نچوا رہا ہے۔

مولانا صاحب میں نے بہت سوچا۔ بہت غور و فکر کیا۔ مجھے یاد آیا کہ ڈی چوک کے دھرنے میں قوم کی بیٹیوں نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔ حضور اب جب ”عمران خان دے جلسے چہ اج میرا نچنے نوں جی کردا“ لگے گا تو جناب والا اتنی پھڑکتی ہوئی دھن پہ کون کم بخت نہیں ناچے گا؟ یہ لکھتے ہوئے بخدا میرے پیروں میں تھرتھراہٹ ہوئی ہے۔ واللہ میرا ناچنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ مگر کیا اب میرا قصور پاؤں تھرتھرانا ٹھہرے گا۔ یا پھر اس گانے کو لکھنے والے، گانے والے، چلانے اور چلوانے والے اور اس پہ قوم کی بیٹیوں کو نچوانے والے کو بھی کچھ کہیں گے آپ۔

مولانا صاحب آپ نے کہا کہ میرے وطن میں بے حیائی پھیلی ہے۔ گھر گھر بے حیائی ہے۔ جس کی وجہ سے وبا اتری ہے۔ گستاخی معاف مجھے یہ بتا کر میرے علم میں اضافہ کیا جائے کہ سعودی عرب یا ایران میں کیسی بے حیائی تھی۔ مولانا صاحب خدا کے گھر کو بند کر دیا گیا۔ میں نے ان کے کسی عالم دین یا حکمران کے منہ سے یہ نہ سنا کہ خدا کا گھر اس لیے بند کیا گیا کہ وہاں کی عورتیں بے حیا تھیں۔ مولانا صاحب اگر انہوں نے ایسا کچھ کہیں بھی کہا ہے تو مجھے ثبوت دکھا کے میرے علم میں اضافہ فرمائیں۔ میں شکر گزار ہوں گی ۔

آپ نے فرمایا کہ قوم لوط پہ عذاب اترے۔ ان کے گناہوں کی وجہ سے۔ مولانا صاحب جہاں تک میں نے پڑھا ہے۔ قوم لوط تو پیمبر کے گنے چنے ساتھیوں کے سوا تمام کی تمام ہی گناہوں میں ملوث تھی۔ ان پہ عذاب اترنا بنتا تھا۔

مولانا صاحب میرے ملک میں تو آپ جیسے عالم دین ہیں جو لوگوں کو نیکی کی راہ پہ چلانے کے دعوے دار ہیں۔ میرے ملک میں تو بقول آپ کے ہمارا حکمران بھی بہت نیکوکار ہے۔ میرے ملک میں تو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں تو کیا اللہ نے آپ جیسے نیکوکاروں کے ہوتے بھی عذاب بھیج دیا۔

مولانا صاحب میں کہ ایک بے حیا عورت۔ میں یہ سوال پوچھنے کی جسارت کر رہی ہوں کہ قصور کی سات سالہ زینب نے کہاں بے حیائی دکھائی تھی۔ مولانا صاحب سنا ہے سندھ میں جب دریا کنارے اندھی ڈولفن کناروں پہ آ جاتی ہے تو آپ کے دیس کے نیک مرد ان کا ریپ کرتے ہیں۔ میں نے جب یہ سنا تھا تب میں نے دعا کی تھی کہ اس قوم پہ عذاب ہی بنتا ہے۔ مگر تب تو کوئی بھی زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا۔

میرے دیس کی وہ عورتیں جو سارا دن گھروں میں بچے پالنے اور خاوند کے گھر آنے پہ اس کی خدمت میں لگ جاتی ہیں۔ وہ تو بہت زیادہ ہیں۔ مولانا صاحب مجھے سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے کیا بے حیائی دکھائی ہے۔

مولانا صاحب جب جھوٹی غیرت کے نام پہ میرے دیس کی بیٹیاں قتل ہوتی ہیں۔ کاری ہوتی ہیں۔ وہ تو بے حیا نہیں ہوتیں۔ پسند کی شادی کی اجازت تو میرے مذہب نے بھی مجھے دی ہے تو میرے دیس کے مرد تب کیوں مذہب کی بات نہیں سنتے۔ جناب والا میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ میرے دیس کے بچے بچیاں بنا عمر کے لحاظ کے مدارس میں گھروں میں زیادتی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کبھی ثبوت مٹانے کے لیے انہیں چھتوں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ کبھی نالوں میں کبھی بوریوں میں تو کبھی جنگلوں میں۔ مولانا صاحب آپ کو نہیں لگتا کہ عذاب اس بات پہ آنا چاہیے تھا؟

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کہاں یہ بے حیا عورت۔ یہ ہوتی کون ہے مجھ سے یہ باتیں کرنے والی۔ جناب والا میں بے حیا عورت اس دیس کی عورتوں کی زبان ہوں۔ مجھے کسی کے لباس سے کسی کے پردے سے کوئی مطلب نہیں۔ مجھے مطلب ہے کہ آپ مجھے یا مجھ جیسیوں کو جو اپنے حقوق کے لیے بول سکتی ہیں۔ انہیں بے حیا کہتے تو بھی بات سمجھ آتی۔ آپ نے تو ساری قوم کی عورتوں کو ہی بے حیا کہہ دیا۔ کیا گزری ہو گی میری ان بہنوں پہ جن کا چہرہ بھی آج تک کسی نے نہ دیکھا۔ وہ جو عبائے یا چادر کے بنا کبھی گھر سے نہ نکلیں۔ وہ بھی جو بچے جنتی جنتی بوڑھی ہو گئیں مگر اففف تک نہ کیا۔ وہ بھی جو خاوند کی مار ثواب سمجھ کے کھاتی ہیں۔

مولانا صاحب کبھی آپ نے سوچا میرے دیس کی بے حیا عورتوں کے چہرے کو جب شادی سے انکار پہ تیزاب سے جھلسا دیا جاتا ہے۔ یا اس کی گردن میں چاقو مارے جائیں تو وہ کیا محسوس کرتی ہو گی۔ کیا وہ تڑپ کے تکلیف سے اپنے اللہ سے یہ نہ کہتی ہوں گی کہ ان پہ عذاب بھیج۔ نہیں مجھے لگتا ہے ان کی دعائیں ضائع جاتی ہیں۔ کیونکہ میں نے کسی ایسے مجرم پہ عذاب اترتے نہ دیکھا۔ الٹا ضمانتیں ہونے پہ سینہ چوڑا کر کے چلتے دیکھا۔

ہمارے جینز پہننے سے پہلے زلزلے آتے تھے۔ اب وبائیں اتر رہی ہیں۔ جبکہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملی کہ عورت نے جینز پہنی تھی تو زلزلہ آیا سیلاب آیا یا وبا پھیلی۔

مولانا صاحب ادنی سا سوال ہے جب لباس ایجاد نہیں ہوا تھا، مرد و عورت بنا کپڑوں کے پھرتے تھے، ان دنوں میں کوئی عذاب اترا ہو تو وضاحت فرما دیں۔

میں بے حیا عورت تو اپنی جانب اتھنے والی انگلی توڑ بھی سکتی ہوں۔ لڑ بھی سکتی ہوں۔ مگر میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ پورے جسم کو عبایہ میں ڈھانپے اور چہرہ چھپائے جب عورت بازار میں چلتی ہے تو اسے دیکھ کے میرے دیس کے نیک مرد ”پیس تے ٹائٹ اے“ (پیس تو ٹائٹ ہے) کیوں کہتے ہیں۔ بس سٹاپ پہ کھڑی لڑکیوں کے پاس گاڑیاں کیوں آ کے رکتی ہیں۔ سکول کالج و یونیورسٹی جاتی لڑکیوں کو اپنے عضو مخصوص نکال کے کیوں دکھائے جاتے ہیں جس سے گھبرا کے لڑکیوں کے قدم جتنے تیز ہوتے ہیں، ان مردوں کو اتنی ہی تفریح ملتی ہے۔ وہ بچیاں ڈر کے مارے گھر بھی نہیں بتاتیں کہ گھر والے پڑھائی چھڑوا دیں گے۔ یہ سب میرے عقل سے عاری دماغ کو آج تک سمجھ نہ آیا۔ آپ سمجھا دیں۔

حضور والا آپ کا ذکر ہو۔ اور آپ کی بیان کردہ حور کا ذکر نہ ہو۔ یہ ممکن نہیں۔ جناب عالی جب آپ اپنے بیانات میں حور کے جسم کی رعنائی لمبائی چوڑائی اس کے سی تھرو لباس کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو میرے دیس کی گرمی میں کھیتوں میں کام کرتی عورت اگر چادر اتار دے تو اس پہ بے حیائی کا طعنہ کیوں۔ میرے دیس کی عورتیں جو ڈاکٹر ہیں۔ وکیل ہیں۔ پائلٹ ہیں۔ نرسیں ہیں۔ کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ دکانیں چلاتی ہیں۔ کپڑا بنتی ہیں۔ گھروں میں کام کرتی ہیں۔ فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں۔ ان کے متعلق آپ کی زبان خاموش رہی۔

جناب من میں چاہتی ہوں کہ آپ ان کو ہی بے حیاؤں کی فہرست سے نکال دیتے۔ کیا دل آزاری گناہ نہیں؟ کیا آپ کے بیان سے ان عورتوں کے دل نہ دکھے ہوں گے جو اپنے خاوندوں کا ہاتھ بٹانے ان کی رضامندی سے کام کرتی ہیں؟ جو اپنے بچوں یا بوڑھے والدین کو پالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے پہ مجبور ہیں۔

مولانا صاحب بھوک بہت ظالم ہے۔ جب بھوک لگتی ہے تو ساری اخلاقیات بھول جاتی ہیں۔ آپ نے ذکر کیا کہ طوائف کے کتے کو پانی پلانے سے اس کی بخشش ہو گئی تو حضور والا جس طوائف کو اللہ نے بخش دیا، اسے بے حیا کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا آپ کو کس نے حق دیا۔ آپ کے نزدیک طوائف اور جسم فروش عورت تو بے حیا ہے پر اس کے جسم کا سودا کرنے والے مرد کے متعلق آپ کی زبان کیوں خاموش ہے۔

بات بہت لمبی ہو گئی ہے۔ مجھے بہت سے مزید سوالات پوچھنے ہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ میں وہ دیوانہ ہوں جو دیوانے سی بات نہ کرے تو اور کیا کرے۔ میرے دیس کی عورت بے حیا نہیں ہے۔ یہاں بے حیائی میرے دیس کی عورتوں نے نہیں پھیلائی۔

یہ وبا ہے اور اس کا تعلق سائنس سے ہے۔ اسے آپ نے سائنسی طریقے سے یا احتیاطی تدابیر سے ہی کنٹرول کرنا ہے۔ وبا سے متاثرہ لوگوں کا علاج کرنے میں میرے دیس کی بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ جو اپنی جانوں کی پرواہ کیے بنا لوگوں کی جان بچا رہی ہیں۔ آپ کی بیماری میں بھی کئی عورتیں ڈاکٹر یا نرسز ہوں گی ۔ مجھے یقین ہے وہ ہرگز بے حیا نہ ہوں گی۔ مولانا صاحب آپ کو اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے مجھ سمیت میرے دیس کی تمام عورتوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ ورنہ جو دل آزاری آپ نے ہماری کی ہے۔ اللہ نے یقیناً اس کا حساب بھی آپ سے ضرور لینا ہے۔

وسلام
آپ کے نیکو کار حکمران کے دیس کی ایک بے حیا عورت۔
نوشی بٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments