کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی


پچھلے دو تین مہینے میں نے خود کو جی بھر کے نظر انداز کیا اور نتیجہ اس کا حسبِ توقع برآمد ہوا کہ جب کسی خیال بلکہ بے خیالی سے چونک کر نظر آئینے پر ڈالی تو پتہ چلا کے آنکھوں کے نچلے پپوٹوں پر واضح لکیریں بن گئی ہیں۔ آج کل انہی لکیروں کو پیٹتے ہوئے وقت گزر رہا ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو قوی امکان ہے کہ اس پیٹنے سے خار کھا کر لکیریں اور بھی اینٹھ جائیں گی اور اپنی جگہ سے ہٹنے کو بالکل راضی نہ ہوں گی۔ اس کے باوجود اپنے تئیں بھلی چنگی سوجھ بوجھ ہوتے ہوئے اب تک یہ نہیں ہوا کہ ان لکیروں کو کم کرنے کا سوچا جائے اور پھر اس سوچ پر عمل شروع کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے اور آنکھوں کے نچلے پپوٹوں پر پڑنے والی یہ تازہ تازہ لکیریں قسمت کی گیلی تختی پر جا پڑیں۔

کچھ ایسا ہی حال ہمارے عوام سے لے کر چھوٹے بڑے تاجروں اور گھریلو سیاست میں الجھی خواتین سے لے کر ملکی حکمرانوں تک کا ہے کہ لکیر پیٹنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اور یہ سوچنے کی کسی کو فرصت نہیں کہ ایسی ہر لکیر ہماری اپنی ہی لاپروائیوں کا نتیجہ ہے۔

جب ان سب کا حال ایک جیسا ہے تو سوشل میڈیائی فورسز بھلا کیوں الگ رہیں۔ یہ کون سے اچھوت، کھشتری یا کسی دوسرے سیارے سے زمین پر اتری مخلوق ہیں۔ آخر یہ سب بھی تو انہی میں سے ”خاص“ اور ”چنندہ“ ٹُومیں ہیں۔

جب باقی سب لکیروں کو بھرنے کا سوچنے اور ”کُھڈّوں“ کو بند کرنے کی تدبیر کرنے کے بجائے اِنہیں پِیٹ پِیٹ کر گہری کھائیاں بنائے چلے جا رہے ہیں تو سوشل میڈیائی فورسز بھی یہی کریں گی نا۔

”یہ تو ہو گا“ کیونکہ خاص طور پر ان وبا کے دنوں میں اور کوئی کام تو کرنے کو ہے نہیں اور نِچلے بیٹھنا ہمیں آتا نہیں۔ آخر وہ ایک لطیفے والے میراثی بھی ہمِیں میں سے ہیں جو ابا جی کے جنازے کا انتظار بھی بیکار بیٹھ کر نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ ”جدوں تک ابا جی نوں نوایا جا ریہا، چلو اسیں پولی پولی ڈھولکی وجا لئے ۔ (جب تک ابا جی کو نہلایا جا رہا ہے ہلکی ہلکی ڈھولکی بجا لیں)

اب بھیا شہ کے مصاحب تو اپنی ڈیوٹی کر کے نکل لیے کیونکہ شہ نے ان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر نئی کُھڈ تیار کروا دی ہو گی، اتنا پروٹوکول تو بنتا ہے نا۔ اور رعایا لگی دل پشوری کے لیے لکیر پیٹنے، جبکہ ڈنڈا برداروں کو خود بھی خوب پتہ ہے کہ ان کی یہ اٹھا پٹخ لاحاصل ہے۔ ویسے تو سوائے چَس لینے کے ان کا مقصد کچھ اور حاصل کرنا ہے بھی نہیں اور چَس تو خوب آ رہی۔

یا پھر اس مبارک مہینے میں ہر کسی کو اپنی اپنی فکر پڑ گئی ہے۔ جیسے خلائی مخلوق نے ان سب کا کچا چٹھا لے جا کے شہ کے مصاحب کے عین سامنے کھول دیا ہو۔ پھر انہوں نے جو بھی کہا وہ نام بہ نام انہی کو مخاطب کر کے کہا ہو۔

جبکہ ایسا تو بالکل نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے اپنے تخاطب میں جمع کا صیغہ استعمال کیا یعنی ہم سب کو ”ایک قوم“ کہا۔ تو بھلا سوچ کر بتائیے کہ اس سے پہلے کب ہم نے اتنے اتفاق کا مظاہرہ کیا کہ ایک پہ چلی گولی دوسرے نے سینے پہ کھائی ہو؟ ایک کو پڑی گالی دوسرے نے جھیلی ہو؟ کبھی نہیں کِیا نا ایسا؟ تو پھر اب کیوں؟ کہیں دال میں کالا تو نہیں؟ یا پھر چور کی داڑھی میں تنکا؟ اگر یہ بھی نہیں تو پھر ہماری اجتماعی دُم پر شہ کے مصاحب کا پاؤں ضرور آ گیا ہے تبھی سب کے سب علیحدہ علیحدہ بلبلا اٹھے ہیں۔

سب کو اس مبارک مہینے میں اپنی اپنی صفائی پیش کر کے گواہیاں جمع کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ بھئی ہم تو دودھ کے دھلے ہیں بلکہ ہمیں تو کبھی ”دھونے دھلانے“ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ جبکہ ان کی یہ صفائیاں نہ یہاں کسی کام کی ہیں نہ وہاں۔ کیونکہ یہاں والوں کو اپنی پڑی اور وہاں والا خوب جانتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

پھر بھی سب کو اپنی اپنی میل سے پاک فلٹرز کے ذریعے چمکائی ہوئی پشت دکھانے کا اور یہ جتانے کا موقع مل گیا ہے کہ بھیا ہمارے ہاتھ بہت لمبے ہیں یہ ہماری پشت کے اس مقام تک بھی پہنچ سکتے ہیں جہاں کھجانے کے لیے اگلے وقتوں میں کسی دوسرے کی مدد درکار ہوا کرتی تھی اور کسی کے گریبان تک پہنچنا اور اس کے چیتھڑے اڑانا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

اس وقت تو یہ کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے جب یہ گھر بیٹھے بٹھائے ایک ہاتھ سے پشت کھجاتے اور دوسرے ہاتھ کی انگلیاں موبائل پہ چلاتے ہوئے ممکن ہو کیونکہ ان کو چلانے میں سبھی خوب ماہر ہیں۔

سچ پوچھیں تو ہم ایسے درد مند دل ( یہاں دل کو دل ہی پڑھا اور سمجھا جائے ) رکھنے والی قوم ہیں کہ اس مبارک مہینے میں بھی ہمیں اپنی بجائے شہ کے مصاحب کی عاقبت خراب ہونے کا دکھ کھائے چلا جا رہا ہے اور ہم اسی کی خاطر ہلکان ہو رہے ہیں۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments