مولانا کو اخلاقی داروغہ نہیں بننا چاہیے


پاکستان میں موجود مولوی اور رجعت پسند طبقہ ہمیشہ مذہب کی تان کو عورت کے لباس اور جسم پر توڑتا ہے۔ مولانا طارق جمیل کا بیان بھی اسی پدر شاہی اور عورت دشمن سوچ کی عکاسی تھا ایسا سماج جو پہلے ہی عورتوں کے لیے ناقابل برداشت رویہ رکھتا اور محض ایک جنس سمجھتا ہو وہاں ریاست کے مبینہ چیف ایگزیکٹو کی سربراہی میں ہونے والی تقریب سے ایسا بیان جاری ہونا انتہائی قابل مذمت ہے۔

مسئلہ عورت کے لباس میں نہیں مسئلہ ہر اس مرد کی سوچ اور نظر کا ہے جو عورت کے لباس اور جسم پر اٹکی ہوئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مرد عورت کو ایک سیکس اوبجیکٹ سے بڑھ کر انسان تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ مسئلہ خود مولانا ہیں جن کی سوچ کا محور و مرکز عورت کا جسم ہے۔

وہ سوچ جو مرد کو برتر اور عورت کو کمتر سمجھتی ہے۔
ہزاروں عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔
ہزاروں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے اور قتل کردی جاتی ہیں۔
لاکھوں گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
ہر تین میں سے دو عورتیں جنس ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں آج تک مولانا طارق جمیل کا ایک بیان بھی موجود نہیں جس میں اس سب کی مذمت کی گئی۔

چند سالوں کی معصوم بچیوں سے جنسی زیادتی اور قتل معمول بن چکا ہے۔
مدرسوں میں بے شمار بچوں کا جنسی استحصال ہوتا اور مجرم قانونی کاروائی سے بچنے کے لیے دین کو ڈھال بناتے ہیں اور اپنے خلاف کاروائی کو اسلام کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں آج تک مولانا نے ان لوگوں کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔

نابالغ ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے ان سے نکاح کے نام پر جنسی زیادتی ہوتی ہے مولانا کی مجال نہیں ایک لفظ بھی بولیں۔

طالبان نے عورتوں کے سکول جلائے اور ان کو اذیت ناک جسمانی سزائیں دیں لیکن طارق جمیل نے آج تک ایک لفظ ان کے خلاف نہیں بولا۔

عورتوں کے حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں شدت پسند مولویوں نے عورتوں پر پتھر برسائے ریپ اور قتل کی دھمکیاں دیں لیکن مولانا نے ان کی مذمت نہیں کی۔

بلوچستان میں ہزاروں مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے پیاروں کی واپسی کی منتظر ہیں نہ ان کا جرم کسی کو معلوم ہے نہ یہ پتا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں، آج تک مولانا نے ان کے حق میں کوئی بات نہیں۔

یہی حال سابقہ فاٹا میں بھی ہے لیکن مولانا نے ان عورتوں کے حق میں کبھی کوئی بات نہیں کی جن کے بچے گھر سے باہر کسی کام سے جاتے ہیں اور بارودی سرنگ کے دھماکے سے ایک ٹانگ سے معذور ہو کے گھر واپس ہیں۔

اس منافقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا کو اخلاقی داروغہ نہیں بننا چاہیے۔
مولانا جب یہ فرما رہے تھے کہ میری قوم کو بیٹیوں کو کون نچا رہا ہے تو وزیراعظم ان کے سامنے بیٹھے تھے جن ایک سو چھیبیس دن کے دھرنے میں کافی ناچ گانے کا مظاہرہ کیا گیا تھا اور ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی قریب میں ایک خاتون آرٹسٹ نے ایک فلم میں آئٹم سانگ کرنے کی یہ توجیح پیش کی تھی کہ یہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا پروجیکٹ تھا۔

بہرحال لباس کا انتخاب ہر فرد کا کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اس کے کردار کا میزان نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ پاکستان میں بہت سی خواتین محنت پیشہ ہیں، ڈاکٹرز ہیں وکیل ہیں صحافی ہیں سیاسی اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں ٹیچرز ہیں جن کنٹربیوشن اس ملک کی ترقی اور فلاح بہبود میں بہت سوں مردوں اور ملاؤں سے زیادہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments