کرونا کی کیا مجال ہے!



پوری دنیا میں کرونا کے بعد والی زندگی پر خوش فہمی پر مبنی بہت سے باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ مثلاً یہ دنیا میں وسائل کا رخ اب میزائل، ٹینک، لڑاکا جہاز، ایٹم بم اور دوسرا تباہ کن اسلحہ بنانے کی بجائے انسانوں کی فلاح وبہبود کی طرف مڑ سکتا ہے۔ وجہ اس کی واضح ہے، ہر قسم کا مہلک اسلحہ ایک چھوٹے سے وائرس سے بچاؤ میں ہماری کوئی مدد نہیں کر رہا۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب پوری دنیا سے ذاتی مفادات، انا، کمزوروں کوزیر کرنے کی جبلت، چودھراہٹ اور غلبے کی خواہشات، دنیابھر کے وسائل اپنی جھولی میں ڈالنے کی تمناوغیرہ وغیرہ کی بساط لپیٹنا پڑے گی، جو لپٹ نہیں سکتی۔

اسلحہ سازی ایک کاروبار ہے۔ جب تک یہ کاروبار ہوتا رہے گا، دنیامیں کسی ایسی تبدیلی کی بات صرف کاغذوں پر کی جا سکتی ہے، عملی طور پر ایسا ممکن نہیں۔ موجودہ حالات میں تو دنیا بھر میں ٹینکوں کی تعداد وینٹی لیٹرز کی تعداد سے زیادہ ہی رہے گی۔ کیا بد ترین حالات میں بھی ایران پر پابندیاں لگانے والے ممالک نے اس کی اپیلوں کے باوجود، پابندیاں اٹھانے کا کوئی ہلکا سا اشارہ بھی دیا؟ بھارت نے کشمیرمیں ظلم کی رسی کو تھوڑا سا بھی ڈھیلا کیا؟ نہیں نہ، اگر ان حالات میں بھی ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں جا رہا تو بعد میں کس نے سوچنا اور کرنا۔ دنیا کے یہ حالات ویسے ہی رہیں گے، جیسے چل رہے ہیں۔

اب ذرا اپنے پیارے پاکستان کی خبر لیں۔ ادھر بھی ایسی ہی باتوں کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ اٹھائے جا رہے ہیں کہ نام نہاد لاک ڈاؤن کی وجہ ہم پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، کیا مثبت نتائج کی وجہ سے ان کو مستقل لاگو کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر بازار صبح جلدی کھول کر شام کو جلدی بند کر دیے جائیں تا کہ توانائی کی بچت بھی ہو اور ہم فطری زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔ آخر اللہ تعالٰی نے قرآنِ پاک میں بھی تو یہی ارشاد فرمایا ہے : ”میں نے رات آرام کے لئے اور دن کام کے لئے بنایا (مفہوم) ۔

کیا کرونا ہماری زندگی میں کوئی نظم وضبط پیدا کر سکے گا کہ ہمیں قطار بنانے کا سلیقہ آ جائے گا؟ ہم میں ٹریفک سینس پیدا ہو جائے؟ کیا ہمیں اپنی باری کی سمجھ آ جائے گی، کیا کرونا کا خوف ہمارے اندر کوئی ایسی خدا ترسی پیدا کر دے گا کہ ہم ناجائز منافع خوری خاص طور پر رمضان کے مقدس مہینے میں سے باز آ جائیں گے؟ کیا ہم ذخیرہ اندوزی اور دوسری ہیرا پھیریوں سے باز آ جائیں گے؟ حالات یہی بتا رہے کہ ان سوالات کا جواب بھی نفی میں ہے۔

عین وبا کے دنوں میں جب شہر شہر مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جنازے اٹھ رہے ہیں، ہم اپنی عادات بدلنے کے لئے تیار نہیں، بعد میں تبدیلی کی کیا توقع رکھی جائے۔ بازاروں میں نکل کر مشاہدہ کیا سکتا ہے کہ ہم میں کیا تبدیلی آئی ہے اور کیا آنے کا امکان ہے؟ سب کچھ ویسا ہی چل رہا اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ہم نے سنگین حالات میں میڈیکل سٹورز پر وہ اشیاء مہنگی کر دیں جو کسی بھی طریقے سے کرونا کے اثرات کو کم کرنے کے لئے استعمال ہو سکتی تھیں۔

مزید تسلی کے لئے بازار کا چکر لگائیں اور رمضان شریف سے پہلے اور بعد والی کچھ اشیاء مثلاً لیموں، سیب، کیلوں، سبزیوں اور دوسرے پھلوں اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں کا موزانہ کر لیں تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کہ ہر طرف پھیلی موت کے سائے بھی ہمارے حرص اور لالچ کو کم نہیں کر سکے۔ ہم تو ان حالات میں بھی حق دار نہ ہوتے ہوئے“ احساس ”پروگرام میں رجسٹرڈ ہو کر غریبوں کا مال ہڑپ کرنے میں مصروف ہیں۔

ریکارڈ گواہ ہے کہ ماضی میں ایسے لاکھوں“ حق دار ”فہرستوں سے خارج کیے جا چکے ہیں۔ رہا گناہ ثواب کا مسئلہ تو کوئی پریشانی والی بات نہیں۔ اسی ناجائز منافع سے عمرہ کر کے سب گناہ بخشوا لئے جائیں گے۔ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب بھی تو دیکھیں کہ کتنا ہے؟ رہی سہی کسر میلاد کروا کے پوری کر لی جائے گی۔ کتابوں میں گناہوں سے پاک ہونے کے لئے کتنی تسبیحات درج ہیں، وہ آخر کس دن کام آئیں گی؟

“ جنت کی کنجی ”کتاب کسی نے ایسے تو نہیں لکھ دی نہ، وہ بھی ہمارے لئے ہی ہے۔ قدر کی رات بھی تو ابھی آنی ہے، جس میں عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات کو بھی ہمارے لئے ہی با برکت بنا یا گیا ہے۔ پھر مساجد میں بھیجا جانے والا افطاری کا سامان اور پکائی جانے والی دیگیں، ضرور ہماری بخشش کا سامان پیدا کریں گی۔

ان حالات میں کرونا سمیت جس نے بھی یہ امید لگائی ہے کہ ہم کوئی سبق حاصل کریں گے، اسے چاہیے کہ کان لپیٹ کر چلتا بنے اور ہمیں رمضان شریف کی ”برکتیں“ سمیٹنے دے۔ کرونا کی کیا مجال کہ ہمارے آگے ٹھہر سکے اور ہمارے معمولات میں تبدیلی لا سک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments