مولوی جو کہتا ہے وہ کرو


مولوی لفظ بہت پرانا اور بوسیدہ ہے اتنا بوسیدہ کہ ہمارے پڑھے لکھے معاشرے میں تو بالکل نہیں چل سکتا۔ ایک وقت تھا کہ صرف ایک مخصوص طبقہ ہی اس سے بیزار نظر آتا تھا، لیکن اتنی بندشیں دیکھ کر اب تو کبھی کبھی خود مولوی بھی اس سے بیزار نظر آتا ہے۔ آج کے دور میں جب ہر چیز میں جدت آچکی ہے وہاں نہیں بدلا تو اک مولوی کا ذہن نہیں بدلا۔ اس کی کل بھی ڈیڑھ اینٹ کا اپنا حجرہ تھا آج بھی ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد ہے۔ مولوی صدیوں سے دوزخ سے ڈراتا آرہا ہے اور آج بھی اسی کام پہ لگا ہے۔

یہ مولوی ہی ہے جس نے ڈرا ڈرا کر لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اتنا حرام کہ اکثر حلال کام کو بھی شک کی نظر کر کے حرام کر دیتا ہے۔ وہ کام جسے مولوی خود پہ فرض سمجھتا ہے وہ کفر سے بچنا اور دوسروں پہ کفر کے فتوے لگانا ہے۔ وہ غیر مسلموں سے تو احسن کلام کرنے کی تبلیغ کرتا ہے تا کہ وہ مسلمانوں سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوں، لیکن پہلے سے اسلام میں داخل لوگوں پر کفر کے فتوے لگا لگا کر انھیں خارج از اسلام قرار دیتا ہے۔

اسے دیکھتے ہوئے کبھی کبھی تو لگتا ہے جیسے اسلام پھیلانے سے زیادہ اسلام سے خارج کرنا اور کفر کے فتوے لگانا اس کا محبوب ترین کام ہے، اتنا محبوب کہ اس کا بس چلے تو محبوب نام والے پر بھی فتوی لگا دے، کہ مولوی سمجھتا ہے محبوب کہنے سے شہوانی جذبات ابھرتے ہیں۔ اسی لئے تو وہ نا محرم عورتوں پر بھی غلط نگاہ ڈالنے سے روکتا ہے۔ لیکن پھر جانے کیوں جنت کی حوروں کی وہ ایسی دلکشی و رعنائی بیان کرتا ہے کہ پارس سے پارس انسان بھی حوروں کے تصور میں دنیا سے بیزار ہو جائے۔ مولوی ہمیشہ امن کا درس دیتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فقہی مسائل کی وجہ سے انتشار کا باعث بھی مولوی ہی بنتا ہے

اکثر کہا جاتا ہے مولوی جو کہتا ہے وہ کرو جو کرتا ہے وہ نہ کرو۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے کہ سارے مولوی خدا کی راہ میں خرچ کی فضیلت بتاتے ہیں اور خدا کی راہ میں دینے کو اکساتے ہیں لیکن یہ کم ہی سنا کہ کسی مولوی نے خود خدا کی راہ میں خرچ کیا ہو۔ بلکہ جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے اس کا سب سے پہلا حقدار مولوی خود کو تصور کرتے ہیں۔ کچھ کم کھاتے ہیں کچھ زیادہ اور کچھ سارا ہی کھا جاتے ہیں۔ ایک دیہاتی مولوی جسے جمعرات کی روٹی اور حلوے کی پلیٹ سے زیادہ نہیں ملتا وہ اسی پر صبر شکر کر لیتا ہے، کہ یہ انتہائی قناعت پسند ہوتا ہے۔

اتنا قناعت پسند کہ زیادہ علم حاصل کرنے کو بھی دماغی اسراف میں شمار کرتا ہے وہ دنیاوی تو دور دینی تعلیم پر بھی قناعت اختیار کیے رکھتا ہے اور بنا تلفظ کی درست ادائیگی کے سادہ قرآن، نماز جنازہ اور نکاح پڑھانے سے آگے نہیں بڑھتا۔ گاؤں کے لوگوں کو بھی سیدھی زندگی گزارنے کی وجہ سے کوئی شرعی مسئلہ تنگ نہیں کرتا سو مولوی کی عزت اور گاؤں والوں کا ایمان ہمیشہ قائم رہتا ہے۔

شہری مولوی البتہ شہری آب و ہوا کی طرح ہوتا ہے۔ یہ قناعت کا درس ضرور دیتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ اس کی خدمت میں قناعت کو فراموش کردیا جائے۔ یہ حلوے کی پلیٹ پہ ہرگز راضی نہیں ہوتا، بلکہ اگر کسی ختم پر صرف حلوہ ہی نظر آئے تو پھر وہ دوبارہ اس گھر میں اپنا جلوہ نہیں کرواتا۔ کسی درس میں اتفاق کے فضائل بیان کرنے والے صاحبان واپسی پر آپس میں پیسوں کی تقسیم پر جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً یہ بھی دنیا میں کوئی اتنی خوشحال زندگی نہیں گزارتے۔ ان کا گزارہ بھی صرف تنخواہ یا دسویں، چہلم وغیرہ کے ختم شریف پر ہوتاہے اور یا پھر آخرت میں ملنے والی نعمتوں کے خوابوں پر۔

اصل کمائی مدرسے کے مولوی کرتے ہیں۔ لوگ مدرسہ چلانے کے لئے خدا کی راہ میں ہزاروں لاکھوں دیتے ہیں۔ یہ مولی حضرات جتنا بڑا مدرسہ چلاتے ہیں مدرسے کے طلبا کے نام پہ اتنا زیادہ صدقہ درکار ہوتا ہے۔ مدرسے کے نام پہ صدقہ خیرات مانگتے ہیں اور طلبا کے لئے آئے صدقے کے کے بکروں کو اپنے گھر میں پکواتے ہیں اور طلبا کے لئے مدرسے میں دال پکوا کر انھیں انکساری کی تعلیم دیتے ہیں اور مدرسے کے نظم و نسق کے لئے اکٹھے ہوئے پیسوں سے بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں جس میں بیٹھ کر درس دینے جاتے ہیں جسے سن کر لوگوں کا ایمان اور مولوی کی دنیا و آخرت سنورتی ہے۔

یہ مولوی کی وہ کلاس ہے جو مدرسے کے نام پہ آنے والے تمام چیزوں صدقات زکوت کو خود پہ واجب سمجھتے ہیں۔ حرام روزی سے منع کرتے ہیں اور مدرسے سے ہونے والی آمدن ہی ان کا حلال رزق ہوتا ہے، تبھی تو مولوی ابتلا کے دنوں میں بھی لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ بے شک لوگ مصیبت میں ہیں، وبا کی وجہ سے بے روزگار ہیں، انھیں مدد کی ضرورت ہے لیکن اس سب کے باوجود اپنی زکوت خیرات صرف ہمیں یعنی مدارس کو دینی ہے۔ لوگ بے شک بھوک سے مررہے ہیں لیکن انھیں اس بات کی زیادہ فکر ہے کہ ان کا اپنا معاشی سلسلہ برقرار رہے۔ اگر کوئی کم فہم اعتراض کرے کہ وبا، آفت کے دنوں میں مصیبت زدہ لوگوں کی بجائے مدارس کو زکوت خیرات دینے کا حکم مولانا کی طرف سے کیوں آیا، تو یقین جانیئے اس میں صاحب اعتراض کے ایمان میں تو کمی ہوسکتی ہے لیکن مولانا کی نیت پر شک نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments