خود مختار مقامی نظام حکومت ناگزیر ہوگیا ہے


کرونا وائرس سے جڑے بحران سے نمٹنے میں ریاستی و حکومتی سطح پر جو بڑے بڑے چیلنجز سامنے آئے ہیں ان میں ایک بڑا مسئلہ ملک میں مضبوط، مربوط، شفاف اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ اہل دانش کی سطح سے یا جو لوگ حکمرانی کے نظام کی افادیت یا اس کی شفافیت کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں ان کا بنیادی نکتہ بھی ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک کی عملی سیاست و جمہوریت سے جڑے لوگوں کی ترجیحات میں مضبوط مقامی نظام حکومت ایک بڑی سیاسی ترجیح کے طور پر اپنی حیثیت نہیں منواسکا۔ اگرچہ اہل سیاست اس مقامی نظام حکومت کو بڑی شدت کے ساتھ بنیادی جمہوری اداروں سے جوڑ کر ہمیں جمہوریت کا درس دیتے ہیں، مگر اقتدار کے کھیل میں ان کی سیاسی ترجیحات بدل جاتی ہیں اور یہ عدم مرکزیت کی بجائے مرکزیت یعنی اختیارات کو زیادہ سے زیادہ خود رکھنے کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں سیاست اور جمہوریت کو جانچنے کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ مقامی حکومت کا نظام کہاں کھڑا ہے۔ یعنی اگر کسی بھی معاشرے میں نچلی سطح پر جمہوری ادارے جن کو مقامی حکومت کا نظام کہتے ہیں عملا موجود نہیں تو اس ملک کی اوپر کی سطح پر موجود جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت کی کامیابی کی بنیادی کنجی مقامی سطح سے جڑا نظام ہوتا ہے، لیکن اہل سیاست اسی نظام کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس نظام کو اپنے دور اقتدار میں پس پشت ڈال دیتے ہیں یا اگر ان کو کسی سیاسی مجبوریوں یا عدالتی حکم یا نظریہ ضرورت کے تحت مقامی نظام کی تشکیل نو کی کڑوی گولی ہضم بھی کرنا پڑے تو پھر ان اداروں کو اس حد تک سیاسی، انتظامی، قانونی اور مالی طور پر مفلوج بنادیا جاتا ہے کہ یہ ادارے اپنی افادیت کھودیتے ہیں۔

جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے نظام کو تو ہم فوجی حکمرانی کا نظام سمجھ کر خوب تنقید کرتے ہیں کہ وہ فوجی حکمرانی کی ایک سیاسی ضرورت کے تحت سامنے آئے تھے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری جمہوری قوتیں ان فوجی حکمرانوں کے مقابلے میں خود سے ایک مربوط اور مضبوط مقامی نظام حکومت کی تشکیل کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں بناسکے۔ 1973 کے آئین کی شق 140۔ Aکے تحت مقامی نظام حکومت کے یہ ادارے ایک آئینی اور قانونی ذمہ داری کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ لیکن کمال یہ ہے کہ جمہوریت کا بھاشن دینے والے تمام جمہوری یا سیاسی قوتیں مقامی نظام حکومت کی مضبوطی کے تناظر میں مسلسل مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ جرم ان کا اتنا بڑا ہے کہ ان کی جمہوری ساکھ کو بھی سوالیہ نشان کے طور پر پیش کرتا ہے۔

ماضی میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن مقامی حکومتوں کے نظام کی حقیقی قاتل جماعتیں سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان دونوں جماعتوں نے اپنے اقتدار میں اس نظام کی مضبوطی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ میثاق جمہوریت کے نام پر جو ماہدہ کیا گیا اس پر بھی مقامی نظام حکومت کے حوالے سے جو وعدہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے کیا اس پر بھی کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ لیکن اب اس جرم میں ایک اور بڑ ی جماعت کا اضافہ ہوگیا ہے جو آج کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے۔

تحریک انصاف میں وہ روایتی سوچ کے حامل سیاست دان غالب ہوگئے ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے آج تحریک انصاف کی وفاق سمیت پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومتیں ہیں اور بلوچستان میں وہ صوبائی حکومت کے ساتھ مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔ لیکن ان اٹھارہ ماہ کے اقتدار میں بھی حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف مقامی حکومتوں کے نظام کے انتخابات کروانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی ہے اور وہ بھی اس نظام کے بارے میں سیاسی سمجھوتے کا شکار نظر آتی ہے۔

اس وقت کے چاروں صوبائی حکومتوں کے موجود مقامی حکومتوں کے نظام کا جائزہ لیں تو مجموعی طور پر یہ نظام آئین کی شق 140۔ Aاور اسی طرح آئین کی شق 32 کی نفی کرتے ہیں اور ان صوبائی حکومتوں کے نظام کو خود مختار مقامی نظام حکومت نہیں کہا جاسکتا اور اس میں بہت سی ایسی آئینی، قانونی، انتظامی اور سیاسی خرابیاں ہیں جو نظام کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت پر مبنی نظام یعنی زیادہ سے زیادہ اختیارت کی نچلی سطح پر منتقلی کی بحثیں چل رہی ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک میں موجود حکمرانی سے جڑے ماہرین اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے جمہوری ملکوں کو مقامی نظام حکومت کو اپنی حکمرانی کی اہم ترجیح یا اسے اپنی کنجی بنانا ہوگی۔ یہ جو روزانہ کی بنیاد پر ہم سیاسی مجالس، سیاسی مذاکر وں، ٹی و ی ٹاک شوز، پارلیمانی بحثوں، اہل دانش کے مکالمہ سمیت ہر فورم پر جو حکمرانی کے نظام کا ماتم کرکے حکمرانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، مگر اس بحثوں میں اس پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ مسئلہ کی جڑ مقامی نظام حکومت کی عدم موجودگی ہے۔

مقامی نظام حکومت کی اہمیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں لوگوں کی براہ راست رسائی مقامی نظام حکومت اور اس سے جڑے منتخب افراد سے ہوتی ہے۔ یہ نظام لوگوں کے لیے ایک مضبوط رسائی رکھتا ہے اور اس نظام کی شفافیت، جوابدہی، نگرانی، وسائل کی تقسیم، مسائل کا حل مقامی سطح پر، محروم اور کمزور طبقات تک براہ راست رسائی، مقامی ترجیحات کا درست تعین، عام شہریوں کی مقامی نظام میں موثر شمولیت، شہری اور مقامی حکومت کے درمیا ن عدم خلیج، مقامی سوک ایجوکیشن جیسے امو رہوتے ہیں۔

اس نظام کی اہم کامیابی یہ ہوتی ہے کہ یہ نظام حکمرانی کے نظام میں خود سے بڑا کردار ادا کرکے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر حکمرانی سے جڑے مسائل کا بوجھ کم کرتا ہے۔ یہ بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ یا پشاور سے بیٹھ کر پورے پاکستان یا پورے صوبہ کی حکمرانی کا نظام چلانا، اس میں شفافیت کو پیدا کرنا ناممکن ہے۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھنا چاہیے کہ انہوں نے کیسے اپنے حکمرانی کے نظام کی اصلاح کی تو اس میں ایک بڑا سبق ہمیں مضبوط اور مربوط مقامی نظام حکومت کی کنجی کی صورت میں ملے گا۔

آج پاکستان میں سیاسی محاذ سمیت اہل دانش یا سول سوسائٹی کی سطح پر سب سے زیادہ بحث اس مقامی نظام حکومت کو قائم کرنی ہوگی اور اس نظام کو ایک بڑی قومی سیاسی بحث کا حصہ بنانا ہوگا۔ یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا بلکہ اس سے جڑے تمام فریقین بشمول میڈیا کو اس بحث کو آگے لے جانا ہوگا اور اس بحث کو قومی حکمرانی کے بحران سے جوڑنا ہوگا۔ اس وقت سول سوسائٹی کی سطح پر مقامی نظام حکومت کی بحث کو آگے بڑھانے والے اہم فورمز سول سوسائٹی فورم برائے مقامی طرز حکمرانی، سنگت ڈولیپمنٹ فاونڈیشن کے تحت کام کرنے والا لوکل گورنمنٹ ریسورس سنٹر یا ILOGICکے طو رپر کام کرنے والے چند تنظیموں یا افراد کا تھنک ٹینک ہو ان سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سب سے پہلے وفاقی اور صوبائی سطح پر حکمرانی کے نظام کی افادیت، شفافیت اور اسے کیسے موثر بنایا جاسکتا ہے کہ تناظر میں ”خود مختار مقامی حکومتی نظام“ کی بحث کو ایک بڑے سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور مالی ایجنڈے کے ساتھ جوڑیں۔ اس بحث میں اہل سیاست سمیت تمام فریقین کو شامل کیاجائے کہ ہم کیسے اپنی حکمرانی کے نظام کو موثر بناسکتے ہیں اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقات کو کیسے شفاف حکمرانی کے نظام کے ساتھ جوڑا جاسکے۔

پاکستان میں پہلے ہی سوچ وبچار کرنے والے تھنک ٹینک یا اہل دانش کے فورمز کی کمی ہے اور جو کام بھی کررہے ہیں ان کی اپنی فعالیت پر بھی سوالات ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان فکری مجالس کی بحثوں میں بھی حکمرانی کے نظام پر بہت بات ہوتی ہے مگر اس بحران کو مقامی نظام حکومت سے جوڑ کر دیکھنے سے یہ بھی محروم ہیں۔ اخبارات ٹی وی پر لاتعداد ٹاک شوز اور کالموں کی بھرمار ہوتی ہے، فیچرز اور اداریہ لکھے جاتے ہیں مگر تجریہ کیا جائے تو اس میں یہ بحث بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے فورمز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں یا سینٹ کی سطح پر بھی آپ کو یہ بحث بہت کم دیکھنے کو ملے گی۔ ہماری جامعات جو بنیادی طور پر معاشرے کے لیے تھنک ٹینک کا کردار ادا کرتی ہیں وہاں موجود سماجی اور سیاسی شعبوں سے جڑے اداروں میں اس پر بہت کم کام نظر آتا ہے۔ اس لیے مقامی نظام حکومت پر بہت کچھ کرنا ہے اور یہ کام کیے بغیر ہم ایک مضبوط مقامی نظام حکومت تشکیل نہیں دیں سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments