کورونا وائرس: ’انفلوئنسرز‘ کی چمک دمک سے بھرپور زندگی ماند کیوں پڑ رہی ہے؟


یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران انسٹاگرام پر زندگی اتنی دلکش نظر آ سکتی ہے۔

گذشتہ ماہ مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے جیک مورس نے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں لی گئی اپنی ایک تصویر انسٹاگرام پر پوسٹ کی۔

اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ تیراکی کا لباس پہنے ایک سوئمنگ پول پر کھڑے ہیں اور ان کے عقب میں گلابی سورج غروب ہونے کو ہے۔

اس تصویر کے ساتھ انھوں نے یہ تحریر درج کی ’لورین اور میں اپنے وِلا (شاندار گھر) کے اندر جتنا مکمن ہو سکے اتنا زیادہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سماجی دوری کے اصول کی تعمیل کر رہے ہیں۔‘

’ایسا کرنا بہت مشکل ہے لیکن اگر ہر شخص اس پر عمل پیرا ہو گا تو یہ (کورونا کی وبا) جلد ہی ختم ہو جائے گا۔‘

اس پوسٹ کے جواب میں جیک کو انسٹاگرام پر فالو کرنے والے ان کے 27 لاکھ مداحوں میں سے بیشتر کی جانب سے کھری کھری سننے کو ملیں۔

اس پوسٹ کے جواب میں کچھ اس طرح کے کمنٹس بھی آئے کہ ’دوست، صورتحال بدترین بھی ہو سکتی ہے۔‘

جیک مورس
جیک مورس

کورونا وائرس کی وبا کا عالمی معیشت پر بہت گہرا اثر ہوا ہے اور یہ اثرات شاید بہت طویل مدتی ہوں۔

ان اثرات سے بچنے اور مارکیٹ میں اپنا وجود قائم رکھنے کی غرض سے بہت سے کاروباری ادارے سب سے پہلا کام یہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے بجٹ میں تخفیف کر رہے ہیں۔

اس اقدام کا سب سے پہلا اور بڑا نقصان میڈیا کی صنعت کو ہو گا جو اشتہاروں کی مد میں پیسہ نہیں کما سکے گی۔

مگر یہ اثرات میڈیا تک محدود نہیں رہیں گے اور ان کی تپش بڑے اخبارات سے لے کر فرد واحد پر مبنی سوشل میڈیا تخلیق کاروں تک پہنچے گے۔

اور سوشل میڈیا پر موجود ان نام نہاد ’انفلوئنسرز‘ (عوامی سطح پر لوگوں کی سوچ پر اثر انداز ہونے والی شخصیات) کے لیے نہ صرف سپانسرشپس (معاوضے کے عوض کسی کی تشہری مقاصد کے لیے خدمات حاصل کرنا) ختم ہو رہی ہیں بلکہ مختلف برانڈز نے ایسی شخصیات کو تشہیر کی غرض سے اپنی مصنوعات کی فراہمی کا سلسلہ بھی منقطع کر دیا ہے۔

ایلیکس اوتھویٹ
ایلیکس اوتھویٹ

ٹریول بلاگرز کیسے متاثر ہوئے ہیں؟

ٹریول بلاگر (سفر کے موضوع پر لکھنے والی لکھاری) ایلیکس اوتھویٹ کہتی ہیں کہ ’میں نے آخری سفر رواں برس فروری میں کیا تھا۔ اس کے بعد مارچ میں مجھے فن لینڈ جانا تھا، اپریل میں ایتھوپیا اور پھر مالدیپ۔ عمومی طور پر میں سال میں چھ ماہ سے زیادہ کا وقت بیرونی ممالک میں گزارتی تھی۔‘

سفر کے موضوع پر ان کا اپنا یوٹیوب چینل بھی ہے جس کے ذریعے وہ ماہانہ ایک ہزار برطانوی پاؤنڈز تک کما لیتی تھیں۔ مگر اب یوٹیوب چینل کے ذریعے ان کی آمدن 100 پاؤنڈز سے بھی کم ہو چکی ہے۔

ان کی جمع پونجی کا کچھ حصہ ان فلائٹس پر بھی ضائع ہوا جو اب منسوخ ہو چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سب کچھ الٹ پلٹ ہو چکا ہے۔ اپنی آمدن اور جمع پونجی کی مدد سے میں مزید بہت کم عرصے تک گزارہ کر سکتی ہوں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔‘

کیرن بیڈڈو نے چار برس قبل وکالت کے شعبے کو خیر آباد کہہ کر اپنا فیملی ٹریول بلاگ، مِنی ٹریول، چلانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

رواں ماہ ان کی آمدن صرف 350 پاؤنڈز رہی جو کہ جنوری کے مہینے میں ہونے والی آمدن سے 95 فیصد کم ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ چھوٹے پیمانے کا ایک کاروبار ہے جو کہ میں نے زندگی کے چھ سال اور بہت سارا وقت صرف کر کے کھڑا کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگ اس بات پر بالکل توجہ نہیں دیتے کہ پسِ پردہ ہم اس کام کے لیے اپنی کتنی توانائیاں صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو اچھی تصاویر لینے کے قابل ہونا پڑتا ہے، ویڈیوز کی کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے، اپنی ویب سائٹ کو مستحکم کرنا ہوتا ہے اور ای میلز کا جواب دینا پڑتا ہے۔‘

کیرن بیڈڈو
کیرن بیڈڈو

نجی کمپنی ’دی لائف سٹائل ایجنسی‘ کی خاصیت لگژری لائف سٹائل کی سوشل میڈیا اور بلاگز کے ذریعے تشہر کرنا ہے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ انفلوئنسرز وہ پہلے لوگ ہوں گے جنھیں اب کام نہیں ملے گا۔

ایجنسی کے ڈیجیٹل ڈائریکٹر خیارا راناویرا کہتے ہیں کہ ’مارکیٹنگ اور اشتہارات کا بجٹ یا تو یکسر ختم کر دیا گیا ہے یا اس میں بہت زیادہ تخفیف کر دی گئی ہے۔‘

’بہت سے کاروباروں کا پہلا ردعمل پریشانی پر مبنی ہے۔ انھوں نے اپنے دروازوں کے ساتھ ساتھ اپنے سوشل اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں اور اخراجات روک دیے ہیں۔‘

اسرائیل کاسول
اسرائیل کاسول

’سب کچھ منسوخ ہو چکا ہے‘

انفلوئنسر اسرائیل کاسول کو تقریبات میں شرکت کرنے اور بڑی کمپنیوں کے برانڈز کی تشہیر اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کرنے کی مد میں سینکڑوں پاؤنڈز کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں گزر اوقات کے لیے انھوں نے اپنے والد سے کچھ رقم ادھار لی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’سب کچھ منسوخ ہو چکا ہے۔ عموماً میں لگژری ملبوسات پہنے اپنی تصاویر پوسٹ کرتا ہوں مگر اس وقت کوئی بھی ان تصاویر کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ چونکہ لوگ اپنے گھروں تک محدود ہیں اس لیے اب کسی کو بھی فیشن میں دلچسپی نہیں رہی ہے۔‘

اسرائیل آج کل اپنے انسٹاگرام پر اپنے کپڑوں کی الماری کو منظم کرنے، کپڑے استری کرنے اور ڈیزائنر فیس ماسک کی تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں۔

تصاویر لینے کے حوالے سے مشہور مقامات جیسا کہ ‘ناٹنگ ہل’ آج کل بالکل سنسان ہیں اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر پوسٹس ہیش ٹیگ ’سٹے ایٹ ہوم‘ کے عنوان سے کی جا رہی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بہت سے بلاگرز اپنے تعلقات رفاحی تنظیموں سے جوڑتے ہوئے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ انھیں پیسہ اور تحائف بھجوائے جائیں تاکہ وبا کے دوران ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔

انفلوئنسر مینڈی روز جونز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’وہ لوگ جنھیں میرے ’ایمازون وِش لسٹ‘ یا ’بائی مِی اے کافی‘ جیسے ٹرینڈ سیٹ سے کوئی مسئلہ ہے تو میں ان کو کہنا چاہتی ہوں کہ فی الحال میرے پاس کوئی روزگار نہیں ہے۔‘

’وہ لوگ جو مدد کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے پیغام یہ ہے کہ مزاحیہ مواد تخلیق کرنے میں صرف ہونے والی توانائی اور سخت محنت کا معاوضہ ملنا اچھی بات ہے۔‘

تابی وارلے بھی ایک جُز وقتی انسٹاگرامر ہیں۔

انھیں امید تھی کہ آئندہ چند مہینوں کے دوران وہ برانڈز کے ساتھ شراکت داری کی بنیاد پر پانچ ہزار پاؤنڈز تک کما پائیں گی مگر اب اس کاروبار میں بہت مندا ہے۔

’میں بہت خوش نصیب ہوں کہ آمدن کے حوالے سے میرا انسٹاگرام پر دارومدار جُز وقتی ہے۔ انسٹا سے حاصل ہونے والی آمدن کو میں اپنا گھر خریدنے کے لیے جمع کرتی ہوں۔ ملبوسات کا کام بند ہو چکا ہے، جن لوگوں کے ساتھ میں زیادہ تر کام کرتی تھی انھوں نے خود حکام سے کاروبار قائم رکھنے میں مدد کی اپیل کر دی ہے۔‘

تابی وارلے
تابی وارلے

’کورونا کی وبا پھیلنے سے قبل یہ ایک عام ٹرینڈ تھا کہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کی غرض سے انفلوئنسرز پر پیسہ خرچ کرتی تھیں۔ عام عقل میں آنے والی بات یہی ہے کہ وبا کا اثر سب سے پہلے جس چیز پر پڑے گا وہ یہی ہو گا یعنی تشہیری اخراجات میں بے تحاشہ کمی۔‘

تاہم وبا کے دوران فیس بک پر عوامی مصروفیت میں 40 فیصد ہوا ہے جبکہ ’ٹِک ٹاک‘ ریکارڈ تعداد میں ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹارگٹ کرنے کے لیے صارفین بدستور موجود ہیں۔

’دی لائف سٹائل‘ ایجنسی کی ڈیجیٹل ڈائریکٹر خیارا راناویرا کہتی ہیں کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انسٹاگرام پر ملنے والے ’لائیکس‘ کی تعداد میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ انفلوئنسرز سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ لائف سٹائل اور صحت کے شعبے سے متعلق پوسٹس کریں۔

’سوشل میڈیا پر ہر کوئی ہوشیار رہنے، فٹنس، بیوٹی اور اپنے آپ میں بہتری لانے پر مبنی مواد پر بات چیت کر رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ انفلوئنسرز کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھ کر کچھ مختلف مواد تخلیق کریں، یعنی وہ کام جو وہ پہلے سے نہیں کر رہے تھے۔

انسٹاگرامر تابی وارلے کہتی ہیں کہ ’پہلے مجھے موسم گرما اور موسم بہار کے کپڑوں کے ٹرینڈز پر شوٹ کرنے تھے مگر اب میں ‘ورک فرام ہوم وارڈروب’ پر کام کروں گی۔‘

’یہ (وبا) مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں کچھ تخلیقی کام کروں۔ اس سدا بہار کام سے کچھ مختلف جو میں پہلے لندن سٹریٹ میں گھومتے پھرتے تصاویر بنوا کر کر رہی تھی۔‘

تاہم لگژری مصنوعات کے انفلوئنسرز، جیسا کہ اسرائیل، کہ لیے یہ ایک ایسا موقع ہے جس میں وہ اس انڈسٹری پر نظر دوڑا سکیں۔

’فی الوقت میں حقیقت کے بہت قریب ہونا چاہ رہا ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ رواں برس مزید ’„ہرمیز‘ برانڈ کے بیگ نہیں خریدیں گے۔

’کورونا وائرس سے مجھے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ پیسہ دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہیے۔ مجھے لگژری اشیا پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے ایک دفعہ پہنے ہوئے کپڑے دوبارہ پہن سکتا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp