علماء اور سیاست


معروف محقق و مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے ”علماء اور سیاست“ کے نام سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی اس کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں : ہندو ستان میں جب ترکوں نے حکومت قائم کی تو انہوں نے علماء کو ریاست میں اعلی عہدے دے کر اس (ریاست) کا ایک حصہ بنا دیا، ان عہدوں میں صد رالصدور، قاضی القضاۃاور شیخ الاسلام کے عہدے قابلِ ذکر تھے۔ سلاطین نے مسجدوں اور مدرسوں میں اساتذہ کے تقرر کو بھی ریاست کے ماتحت رکھاکیونکہ انہیں باقاعدہ سے تنخواہ دی جاتی تھی، مشہور علماء کے لیے انہوں نے خصوصیت سے مدرسے قائم کیے تاکہ وہ مذہبی تعلیم میں مشغول رہیں۔

ریاست اور علماء کے اشتراک کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء نے ریاست کے ساتھ تعاون کیا اور جب بھی حکمرانوں کو ان کی ضرورت پڑی تو ان کی خدمات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا۔ مثلاً حکومت کے خلاف بغاوتوں میں ان کو استعمال کیا گیاکہ یہ باغیانہ خیالات کے خلاف کام کریں اور لوگوں کو بادشاہ کی وفاداری پر آمادہ کریں، اگر کبھی محصولوں کی وصول یابی میں دقت ہوتی تو ایسے مواقع پر بھی ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایاگیا۔

جب برصغیر مغلوں کے ہاتھ آیا تو اس دور کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں، یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ جب عالموں کا اکبر کے دربار میں عروج تھا اور وہ ریاست کی طاقت کو اپنے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے اور جن علماء پر انہیں شبہ ہوتا تھا کہ وہ سُنی عقاعد سے علیحدہ ہیں انہیں قیدو بند کی سزاؤں سے لے کر قتل تک کی سزا دیتے تھے۔ اُن کے حریفوں میں ابو الفضل کا باپ شیخ مبارک تھا، جس پر مہددی ہونے کا شبہ تھا، اور اسی بنا پر یہ اس کے خلاف تھے۔ اس دور میں اُن کے خاندان پر جو کچھ بیتی، اس کا ذکر ابو الفضل نے آئینِ اکبری کی تیسری جلد میں اپنے خاندانی حالات میں کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب علماء کو ریاستی طاقت مل جائے تو وہ پھر کس طرح تشدد کے ذریعے خوف و دہشت گردی کی فضا پیدا کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر لوگوں پر ذاتی حملے کرواتے ہیں۔

اکبر کے دربار سے منسلک دو علماء کا نام بڑا معتبر تھا، ایک لوگوں سے بد تمیزی سے پیش آنے والا شیخ عبد النبی اور دوسرا مخدوم الملک عبد اللہ سلطانپوری، جن کی وجہ شہرت یہ تھی کہ انہوں نے بڑا مال جمع کیا تھا۔ اسی لیے ان کے مرنے کے بعد ان کے ترکہ میں تین کروڑ نقد ملے اور گھر میں قبروں میں دفن کی گئی سونے کی اینٹیں بھی ضبط ہوئیں۔ یہ دونو ں علماء ایک دوسرے کو کافر کہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں کہ کچھ علماء نے اکبر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اُسے صاحب الزماں بنا دیا، کہ جو اسلام کے تمام فرقوں کو متحد کرے گا۔

شریف آملی نے ایک پرانی دستاویز دکھا کر یہ ثابت کیا کہ 900 ہجری میں ایک شخص آئے گا جو دنیا سے تمام برائیوں کا صفایا کر دے گا۔ خواجہ مولانا شیرازی ایک پمفلٹ لے کر آئے جو کسی شریفِ مکہ کا لکھا ہو اتھا اور اس میں امام مہدی کے ظہور کی خوشخبری دی گئی تھی، اس کے بعد انہوں نے خود ایک رسالہ لکھ ڈالا جس میں اکبر کو امام مہدی قرار دے دیا۔ اس کے بعد تو حالت یہاں تک ہو گئی کہ علماء و مفتی اور قاضی بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے دربار اور شاہی پارٹیوں میں شراب تک پینے لگے۔

بعد میں اکبر نے علماء سے مایوس ہو کر ان کا اثرو رسوخ ختم کر دیا، اس کے جہانگیر، شاہجہاں نے بھی علما ء کو مذہبی امور تک محدود رکھ کر اسی پالیسی پر عمل کیا۔ مگر اورنگ زیب نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے علماء کو استعمال کیا اور دوبارہ سے انہیں اختیارات تو دیے مگر بڑی ہوشیاری کے ساتھ انہیں اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے کام میں لایا۔ علماء کو اختیارات ملے تو بجائے اس کے کہ وہ انہیں شریعت کے فروغ کے لیے استعمال کرتے، انہوں نے انہیں اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال کیا، رشوتوں، غبن اور دوسرے ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کرنا شروع کر دی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ایسی کو ئی اخلاقی جرات نہ رہی کہ وہ بادشاہ کو شریعت کے نفاذ پر مجبور کر سکیں۔

مغلوں پر زوال آیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی مضبوط ہونے لگی تو شاہ عبد العزیز دہلوی نے کئی فتوے جاری کیے مثلاً انہوں نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ کافروں کی ملازمت کریں مگر بحیثیت فوجی کے نہیں تاکہ انہیں مسلمانوں سے جنگ نہ کرنی پڑے۔ دوسری ملازمتوں میں کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت بھی دی کہ انگریزی سیکھ سکتے ہیں مگر ساتھ ہدایت تھی کہ اس زبان کو سیکھ کر، نا تو وہ انگریزوں کی خوشامد کریں اور نہ اس کے ذریعے ذاتی مفادات حاصل کریں۔ شاہ صاحب کے اپنے بھتیجے کو کمپنی میں ملازمت ملی تو اسے شاہ صاحب نے صحیح ثابت کیا۔ یعنی اس دور میں ”شوربہ حلال، بوٹیاں حرام“ کا اصول اپنایا گیا۔

نوٹ: ڈاکٹر صاحب کی کتاب کی باتیں یہاں ختم ہو جاتی ہیں۔

آزادی کی تحریک چلی تو علماء نے ”حمایت و مخالفت“ دونوں گروپوں میں کردار ادا کیا۔ پاکستان وجود میں آیا تو ”قیامِ پاکستان تو کیا پاکستان کی پ“ کو بھی نا ممکن قرار دینے والوں سے لیکر، ”پاکستان بنانے کی غلطی میں شامل نہ ہونے“ والوں تک، سبھی نے اقتدار کے حصول اور حاکمِ وقت کی خوشنودی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے۔ 65 ء کے انتخابات میں فاطمہ جناح کے خلاف فتوؤں کے لیے علماء نے خود کو ایک ڈکٹیٹر کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ بھٹو صاحب کا جمہوری دور شروع ہوا تو مولانا کوثر نیازی نازل ہو گئے جنہوں نے تمام کسر پوری کر دی، یہ الگ بات ہے کہ وہ بعد میں ضیاء الحق کی گود میں جا بیٹھے۔ تحریکِ نظامِ مصطفی نامی ڈرامے کی باگ ڈور بھی ایک ”مفتی صاحب“ کے ہاتھ میں تھی۔

ضیاء الحق کے دور میں اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کا سارا کریڈٹ علماء کی ایک جماعت، ”جماعتِ اسلامی“ لے گئی۔ پھر بے نظیر نامی ”عورت“ کی حکمرانی کو ناجائز کہنے والے ”مولانا صاحب“ ، اُنہی کے کوچے سے بڑے بے آبرو ہو کر نکلے مگر ان مولانا صاحب کے لیے نہ تو یہ کوچہ آخری تھا اور نہ ہی وہ بے آبرو آخری بار ہوئے تھے، ابھی ایک ڈکٹیٹر کا کوچہ، اور بنوں کی وہ زمینیں جن کا ذکر بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن نے اپنی کتاب ”ہاں یہ سچ ہے“ میں بڑی تفصیل سے کیا ہے، باقی تھیں، ابھی تو کشمیر کمیٹی کی چیئر مینی بھی راہ میں پڑی تھی۔ چونکہ یہ ڈکٹیٹر صاحب خود کو ”روشن خیال“ بھی کہتا تھا اس لیے ایک پروفیسر کو ”عالم“ کا روپ دھار کر اس کی مدد کرنا پڑی۔ یہ ڈکٹیٹر صاحب گئے، جمہوریت بحال ہوئی تو حج کرپشن اسکینڈل سے پھر ایک مولانا صاحب نے خوب ”ثوابِ دارین“ حاصل کیا۔

2018 کے انتخابات میں جب ایک ”مولانا صاحب“ نے پورے ملک سے امید وار کھڑے کیے تو معلوم پڑا کہ ختمِ نبوت پر پہرہ دینے کے لیے پورے ملک سے امید وار کھڑے کرنا بھی ضروری ہے۔ ان دنوں ایک ضعیف العمر مولانا صاحب ”نامعلوم وجوہات“ کی بنا پر روہتِ ہلال کمیٹی کی چیئر مینی سے چمٹے ہوئے ہے، یہی مولانا صاحب لوگوں کے لیے مسجدیں بھی کھلواتے پھر رہے ہیں اور خود اعلان فرما چکے ہیں کہ ”میں عید کی نماز گھر پہ ادا کروں گا“ ۔

تو جناب یہ بہت پرانی روایت چلی آ رہی ہے کہ علماء نے حاکمِ وقت کو خوش کرنے کے لیے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ ُان کا ذاتی فعل تھا، مگر اس دفعہ اس مقصد کے لیے دوسروں کی ذات پر بھی کیچڑ اچھالا گیا ہے۔ آج ساری ”بے حیا اور بد دیانت“ قوم یک زبان، باآواز بلند یہ گستاخانہ سوال کر رہی ہے کہ حضرت! آپ کی تو معاشرے میں بہت عزت ہے پھر آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ آخر آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے؟

نوٹ:مو لانا صاحب نے میڈیا کے متعلق دیے گئے بیان پر معافی مانگ کر بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ ملک کی قابل احترام ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے بھی معذرت کریں۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments