فقیر اعظم


بہت سے ممالک اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ عوام کے لئے شائع کرتے ہیں۔ یہاں تک امریکہ جیسا بڑا ملک اپنی خفیہ اداروں کی رپورٹس بھی شائع کرتا ہے، جس میں اس سال کے لیے مقرر کردہ اہداف اور کامیابیوں کا ذکرکیا جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف وہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ عوام کو بھی علم ہوتا ہے کہ جن افراد کے کام کرنے کا معاوضہ ادا کرنے کے لئے وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کی کارکردگی اور ترجیحات کیا ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کا باوا آدم ہی نرالہ ہے۔

نہ عوام ٹیکس دینے میں سیریس ہیں اور نہ سرکاری کے پیسے پر پلنے والے اسے حلال کرکے کھانے کا سوچتے ہیں، لہذا کون سا پیسہ اور کیسا کام۔ جو کچھ کیا بھی جاتا ہے اسے پوشیدہ رکھا جاتا ہے، یہاں پر زکوٹا جن اور خلائی مخلوق عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ انہیں کچھ بتایا جائے، کہ کون کہاں پرکیا کررہا ہے اور کچھ کیا بھی ہے کہ نہیں۔ بس جب قربانی کی بات آتی ہے تو عوام کو راگ ”پوریا دھناسری“ سنا دیا جاتا ہے لیکن حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے البتہ ”سب اچھا ہے“ چھاپ کر وسائل کا ضیاع ضرور کیا جاتا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ کے نام پر عوام سے پیسہ اکٹھا کیا تھا، اس کے بعد سے لے کر اب تک مختلف ادوار میں کبھی ڈیم فنڈ، زلزلہ ریلیف فنڈ، سیلاب اور اس طرح کے بہت سے دیگر ناموں سے عوام سے چندے اکٹھے کیے گئے۔ مگر کیا کسی کو معلوم ہے کہ کتنے پیسے جمع ہوئے اور کہاں استعمال ہوئے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ایک بیانیہ عام کیا گیا کہ عوام تو ملک کے خیر خواہ ہیں مگر حکمران چور ہیں، مگر اب بیانیہ تبدیل کردیا گیا ہے کہ صرف حاکم وقت امانت دار ہے جبکہ بائیس کروڑ عوام جھوٹے، بے ایمان اور بے حیا ہیں۔

میرا خیال ہے کہ نہ توحکمران ملک کے لئے سنجیدہ ہیں اور نہ ہی عوام اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر عوام سے چندہ جمع کرنے کے لئے میدان سجایا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق لائیونشریات کے بعد 550 ملین روپے جمع کیے گئے۔ اس کے علاوہ موبائل سے میسج کے ذریعے چندہ جمع کرنے کی الگ سے مہم جاری ہے۔ ٹیلی تھون کی نشریات کے دوران وزیراعظم عمران خان کے پرانے ساتھی کرکٹر جاوید میانداد نے ایک بات کہی، جسے شاید کسی نے سیریس نہیں لیا۔

جاوید میانداد کا کہنا تھا کہ عمران بھائی مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم صرف مانگنے کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔ پہلے شوکت خانم کی تعمیر کے لئے پیسے اکٹھے کرتے رہے (یہ سلسلہ مختلف طریقوں سے آج تک جاری ہے ) اور آج وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھ کر بھی مانگ رہے ہیں۔

لائیو نشریات کے دوران وزیراعظم کے روایتی اسٹیج سیکرٹری سینیٹر فیصل جاوید جس جوش اور جذبے کے ساتھ مانگ رہے تھے۔ اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا، بچپن میں پی ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھا تھا۔ جس میں میزبان نے پیشہ ور بھکاریوں پر ایک پروگرام کرتے ہوئے ایک بھکاری کو بھی بلایا ہوا تھا۔

پروگرام کے دوران اس پیشہ ور بھکاری نے انکشاف کیا کہ اس کی ایک سے زائد بیویاں ہیں اور اس نے الگ الگ جھونپڑیوں کے اندر کلر ٹی وی اور وی سی آر لگا کر دیے ہوئے ہیں۔ ( شاید میری عمر کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ اس وقت انٹر نیٹ تو کیا، پرائیویٹ ٹی وی چینل کا نام نشان نہیں ہوتا تھا اور کلر ٹی وی اور وی سی آر گھر میں رکھنا ایک عیاشی تصور کیا جاتا تھا) پروگرام کے احتتام پر میزبان نے اس پیشہ ور بھکاری سے سوال کیا کہ کیا تمہیں کبھی اس کام پر ندامت نہیں ہوئی یا کبھی مشکل نہیں ہوئی۔

جس کے جواب میں بھکاری نے کہا کہ مشکل کیسی؟ صرف ہاتھ ہی تو پھیلانا ہے۔ پروگرام اینکر کے وہ الفاظ جہاں تک مجھے یاد پڑتے ہیں کچھ یوں تھے، ”ناظرین، اس بھکاری نے بڑے آرام سے کہہ دیاکہ صرف ہاتھ ہی تو پھیلانا ہے، لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ جب آپ ہاتھ پھیلاتے ہیں تو آپ اپنی عزت نفس مارمارچکے ہوتے ہیں اور یہ کام کتنا مشکل ہے کہ ایک عزت دار آدمی شاید ایساکام کرنے سے پہلے موت گوارا کرے۔“

مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم عوام کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پہلے کتنے مجبور اور بے بس تھے کہ عوام کی فلاح اور مدد کے لئے عوام کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوئے۔

جبکہ میڈیا رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران غریب اور مستحقین کی مدد کے لئے مختص کی گئی رقم میں سے بھی 276598593 روپے ابھی تک باقی تھے۔ ہمارا ملک فلاحی ریاست نہیں ہے لہذا حکومت کی ترجیحات میں عوامی فلاح شامل نہیں تو بھی ایک ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ اور بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ اس کے علاوہ ناگہانی صورتحال میں حکومتیں ہنگامی بنیادوں پر ایک بجٹ مختص کرکے خصوصاً محروم طبقے کے لئے انتظامات کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان تمام سہولیات کا فقدان رہا ہے۔ ویسے تو ہم سب پاکستانی مقروض بھی ہیں اور بھکاری بھی، لیکن عمران خان کو اس معاملے میں خصوصی مہارت حاصل ہے۔ خداجانے کب تک ہماری عوام ایسے لوگوں پر اپنے سرپر بٹھاتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments