نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں


یہ کرونا کی دنیا ہے، اس میں ہم سانس لے نہیں رہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اس کا انتظام یا بندوبست کر رہے ہوں۔ ہر آدمی دوسرے سے خوف زدہ ہے، اس نے انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کو تقریباًمفلوج کر کے رکھ چھوڑا ہے، اوراب یہ کسی جسمانی مرض سے کہیں بڑھ کر نفسیاتی عارضہ بن کر سامنے آیا ہے جس نے ایک عالم گیر اذیت ناک صورتحال کو جنم دیا ہے۔

پاکستان میں حالات دگر گوں ہیں، یہاں اعلیٰ ترین سطح سے لے کر عام فرد تک سب کنفیوز دکھائی دیتے ہیں! چھوٹے شہروں کی حالت زیادہ خطر ناک ہے، کوئی دکان دار، سبزی فروش، دودھ والا، ریڑھی اور ٹھیلوں والے یہاں تک کہ پڑھے لکھے افراد اور ملازمین بھی حفاظتی اقدامات کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے۔ یہ وبا کو جھوٹ یا سازش گردانتے ہیں۔ اگر آپ دستانے اور ماسک پہن کر اشیاء خوردونوش یاضروریات کی دیگر اشیاء خریدنے بازار جاتے ہیں تو غیر سنجیدگی کی حد یہ ہوتی ہے کہ یا وہ آپ کو ایلین سمجھتے ہیں یا اللہ معاف کرے جیسے آپ خود ایک کرونا وائرس ہوں ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس شخص پر قہقہ بلند کر دیں!

ووہان سے پوری دنیا میں پھیل جانے والی وبا ایک دہشت بن کر، زمین پر بسنے والے کم و بیش ہر آدمی کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ بات کریں تو چھ فٹ کے فاصلے سے، ہاتھوں کو بار بار دھونا، گھر سے نکلیں تو مکمل احتیاط کے ساتھ، گھر میں داخل ہوں تو پہلے خود کواچھی طرح صاف ستھرا کریں، جوتے کپڑے محفوظ جگہ پر رکھیں، چھینکیں تو خیال سے، کھانسنے پر خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع، جب گھر میں داخل ہوں بچے دوڑتے ہوئے آپ سے لپٹنا چاہیں تو انہیں روک دیں! حد یہ ہے کہ ان سے ہاتھ نہیں ملا سکتے۔ پیار نہیں کر سکتے، کیا یہ سب جھوٹ ہے؟

بھائیوں، عزیز رشتہ داروں، دوست احباب سے آزادنہ میل جول فی الوقت ممنوع ہے، اس خیال سے کہ ہم ایک دوسرے کی حفاظت کر رہے ہیں! دیہات، شہر لاک ڈاؤن، کارخانے، فیکٹریاں، ملز بند ہیں، تاجروں کی دکانوں ں پر تالے، سڑکیں، گلیاں، باغات، مارکیٹیں سنسان، تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ٹوکیو، لندن، نیو یارک کی گلیاں ویران ہو جائینگی، چرچ، مندر، گوردوارے، ٹیمپل اور دیوار گریہ میں آمد و رفت ختم ہو چکی ہے، یہاں تک کہ حرم پاک اور مسجد نبوی میں بھی عاشقان کی آمد روک دی جائے گی؟ ہر شخص گھر میں محبوس ہے۔ کیا اس میں بھی کوئی شک ہے؟

تعلیم یافتہ اور مہذب معاشروں میں حفاظتی اقدامات اور وبا کے خلاف شعور اجاگر ہوتے ہوتے ایسی خطرناک صورتحال پیش آ چکی ہے کہ عظیم طاقتیں اور امیر ممالک کے سربراہان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ صدرٹرمپ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر مرنے والوں کی تعداد ایک سے دو لاکھ بھی ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بہت بڑے نقصان سے بچ گئے؟ دو لاکھ انسانی زندگیاں! یہ امریکہ ہے! دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور معیشت۔ تمام بڑے مغربی ممالک انگلینڈ، فرانس، اٹلی، سپین اور جرمنی کے پاؤں سے زمین کھسکتی جا رہی ہے! عالمی لیڈر اپنی عوام سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کووڈ 19 کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالنی پڑے گی کیونکہ اس کا آسانی سے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کیا یہ بھی بے پر کی اڑائی گئی ہے؟

خواہ ہم کچھ بھی تصور کریں اس صداقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ”دنیا بند ہے“ ! اور زمین پر دہشت کا راج ہے۔ سیارہ پرکرونا سے متاثر افراد کی تعداد تیس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، دو لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ میڈیا پرسن اور ماہرین کے مطابق اس تعداد میں ابھی مزید اضافہ ہو گا۔ اس وبا کا خاتمہ بھی اس وقت تک ہی ممکن ہے جب تک کوئی ویکسین یا دوا ایجاد نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں امید ہے کہ کوئی کامیابی حاصل ہو، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کام کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ویکسین ایجاد ہوتی ہے تو پھر اس پر تجربات ہوں گے بعد ازاں ساڑھے سات ارب افراد تک اسے پہنچانا؟ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہفتوں، مہینوں کی بات نہیں ہے بلکہ سالوں پر محیط ہو گا۔ ایک۔ دو یا شاید اس سے بھی زیادہ۔

چین کرونا کے خلاف کامیابی سے لڑتے ہوئے اپنے شہروں میں کاروباری معاملات تعلیمی سرگرمیوں اور زندگی کو معمول کے مطابق لانے کی کوششیں تیز کر چکا ہے۔ امریکہ، یورپ اپنی موجودہ اور آنے والی تباہی کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں، بڑے بڑے پیکجز کا اعلان کر رہے ہیں اور طویل مدتی اقدامات کو آخری شکل دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

دوسری جانب، وطن عزیز میں صورتحال انتہائی گمبھیر ہے۔ پاکستان میں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد ساڑھے چودہ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے، تین سو سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ مئی کے مہینے میں، اس میں زبردست اضافہ کاخدشہ ہے۔ کرونا وائرس کے خلاف جنگ کا بڑے شد و مد اور زور و شور سے اعلان کیا جا رہا ہے، لیکن حالات یہ ہیں کہ دھاڑی دار، مزدور، کسان غربت کے آسیب سے خوف زدہ ہے، ملازمین کے شکوک وشبہات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے، دکاندار، تاجر، صنعتکار غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہیں، سفید پوش اذیت میں مبتلا ہیں، سیاستدانوں اور حکمرانوں کے موقف الگ الگ، ملک کے ڈاکٹرز احتیاط کی دہائی دے رہے ہیں، ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ ماہ مقدس، رمضان کریم کا آغاز ہو گیا ہے۔ پھر عید کی آمد آمد ہے۔ ایسے مواقع پر لاک ڈاؤن نرم ہو گا، سخت ہو گا، سمارٹ ہو گا یا نہیں ہو گا، ابھی واضح طور پر طے ہونا باقی ہے۔

کرونا کے خلاف جنگ، لشکر میں شامل سپاہی جس جنگ میں شریک ہیں وہاں ہر ایک اپنی مرضی اور منشاء سے لڑنے کا ارادہ کیے کھڑا ہے! سپاہیوں کی بہت بڑی تعداد ان دیکھے، سر پرآئے دشمن کو جھوٹ، دھوکہ اور سازش سمجھ رہے ہوں (بلا شبہ جلد یا بدیر اس خطرناک دشمن کا خاتمہ یقینی ہے ) لیکن جس جنگ میں لشکر کے اندر بھگدڑ مچی ہو، اتحاد اور یکجہتی کا فقدان ہو اس کی با وقار فتح کی پیش گوئی دیوانے کا خواب تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments