میرے مزدور دوست کی رخصت


سمجھ نہیں آ رہی اس مزدور کا تذکرہ کہاں سے شروع کروں یادوں کا ایک وسیع سلسلہ قرطاس ذہن پر دستک دے رہا ہے دیرینہ شناسائی کی وجہ سے اس کی زندگی کے حالات و واقعات کا چشم دید گواہ ہوں شناختی کارڈ کی گواہی کے مطابق میرے اس مزدور دوست کا 1939 میں جھبیل خاندان میں جنم ہوا اس خاندان کو صوبہ سندھ میں ملاح، موہانہ یا جام کہا جاتا ہے جبکہ پنجاب میں یہ خاندان جھبیل کے نام سے جانا جاتا ہے ایک ایسا قبیلہ جس کے افراد ہیمنگ وے کے ناول سمندر اور بوڑھا کے کردار سانتیاگو کا حقیقی اور عملی پرتو ہیں۔

بچپن میں ہی میرے دوست کے والد کا انتقال ہو گیا تو گھر کی ذمہ داری کے بوجھ کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکا گو کہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا لیکن عملی زندگی کے اسباق نے اس کو مجھ ایسے بعض نام نہاد تعلیم یافتہ افراد سے بھی اونچی صف میں لا کھڑا کیاتھا جس کا مظاہرہ میں نے متعدد مواقع پر دیکھا اس کی سمجھداری اور معاملہ فہمی کی وجہ شاید یہی تھی کہ اس نے کام کی بات جہاں سے بھی سنی پلے باندھ لی اور اس پر زندگی بھر عمل کرنے کی کوشش کی محنت کو عظمت جاننے کا سبق بھی اس نے بچپن ہی سے پڑھ لیا تھا۔

اونٹوں کی رکھوالی سے لے کر ان پر مال دور دراز مقامات تک لے جانے تک اس نے ہرمشقت طلب کام کیا رات میں دریا سے مچھلیاں پکڑنا پھر کمر پر اٹھا کر اونٹوں پر لادنا وہاں سے دور سڑک پر منڈیوں تک جانے والی گاڑیوں تک پہنچانا اس عمل کے دوران کمر میں بڑی مچھلیوں کے کانٹے چبتے جس سے کمر کا رنگ لال ہو جاتا اپنے ایک چہیتے اونٹ کی پر اسرار موت کے بعد میرے دوست سے صدمہ برداشت نہ ہوا تو اس نے باقی اونٹ بیچ دیے اور مچھلیاں پکڑ کر خود بازارمیں بیچنا شروع کر دیں۔

اونٹ کے حوالے سے میرے دوست کا ایک واقعہ معروف ہے ایک دن بازار میں گھس آنے والے ایک باؤلے اونٹ کو اس نے اپنی طاقت سے زمین پر گرا کر لوگوں کو ممکنہ خطرے سے بچا لیا تو اس دن کے بعد اس کے نام کے ساتھ اونٹ کے سابقے کا بھی اضافہ ہو گیا اب لوگ میرے دوست کو رحیم بخش جھبیل کی بجائے رحیما اوٹھ (رحیم اونٹ) کہہ کر پکارتے تھے اونٹ کہنے کی وجہ میرے دوست کی غیر معمولی جسمانی طاقت تھی ساس نے بھی اسی وجاہت اور طاقت سے متاثر ہوکر بیٹی کا رشتہ دینے کی فوراً حامی بھر لی تھی۔

سخت محنت کرتے کرتے اس نے مزدوری سے تجارت کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا ااور کریانہ کی دکان کھول لی تھی شاد ی کے بعد پروردگار نے اسے دو بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا اولاد کی بھلائی کے لئے انسان ہر تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے میرا دوست تو بچپن سے ہی محنت کا خوگر تھا اس بات کی گواہی اس کا غیر معمولی حد تک مضبوط جسم دیتا تھا ایک دفعہ وہ گرمی کے موسم میں گھر میں بیٹھا تھا توکمر پر سیاہ دانے نمایاں ہو رہے تھے اس کی بیٹی نے ایک دانے کو انگلیوں میں لے کر زور سے دبایا تو اس میں سے سیاہ رنگ کا پیپ نما مادہ نکلا در حقیقت یہ مچھلیوں کے وہی کانٹے تھے جو جسم میں جا کر گھل گئے تھے اور ان کی باقیات سیاہ دانوں کی شکل میں ظاہر ہو رہی تھیں سب کی آنکھوں میں آنسو تھے ایسے مواقع پر میرا دوست بڑی صفائی سے اپنی جوانی کے قصے سنا کر بات کا رخ موڑ دیا کرتا تھا تا کہ اس کے بچے آزردہ نہ ہوں۔

تجارت میں ترقی کرتے ہوئے اس نے زرعی اجناس کی تجارت بھی شروع کر دی تھی یہی وہ وقت تھا جب لوگ اس کا نام سیٹھ کے لاحقے کے ساتھ لیتے تھے بہرحال انسانی زندگی میں وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا بقول اقبال ثبات اک تغییر کو ہے زمانے میں۔

ایک بدبخت لمحہ وہ بھی آیا جب میرے دوست کی سادگی اور ایمانداری نے اسے تمام کی تمام جمع پونجی سے محروم کر دیا ہوا کچھ یوں کہ اس نے بڑی مقدار میں کپاس کی جنس خرید رکھی تھی ایک بڑے بیوپاری نے اسے ڈرایا کہ کپاس کی قیمت ناقابل یقین حد تک گرنے والی ہے اگر اس وقت جنس نہ بیچی تو زندگی بھر پچھتاؤ گے اس نے جس قیمت پر جنس خریدی تھی اس سے بہت کم داموں میں اس بیوپاری کے ہاتھ بیچ دی۔

جس سے میرے دوست کی تمام جمع پونجی اس نقصان کو پورا کرنے کی نظر ہوگئی اور اگلے چند گھنٹوں میں کپاس کی قیمت کم ہونے کی بجائے فی من کافی اوپر جا چکی تھی اب کا نہیں معلوم لیکن تب غلہ منڈیوں میں یہ روایت تھی کہ زبان دے دی تو نقصان ہو یا منافع ہر صورت عمل کرنا ہو گا۔

وہی بیوپاری ایک عرصہ میرے جنرل سٹور پر اکثر آتا اپنے دوست کے ساتھ اس کے برتاؤ کا دکھ تو مجھے تھا ہی اوپر سے اگر اس نے ایک ٹوٹھ برش بھی خریدنا ہوتا تو ایک حدیث ضرور سناتا جس کا مفہوم یہ ہوتا کہ دکاندار سے چیز خریدتے ہوئے اتنا جھگڑا کرو کہ پسینہ آ جائے اور وہ اس حدیث پر پورا پورا عمل کرتا بزرگوں کے سکھائے ہوئے سبق کی وجہ سے روایتی احترام کا مظاہرہ کرنا پڑتا لیکن مجھے ان صاحب کا اپنے جنرل سٹور پر آنا بالکل بھی نہیں بھاتا تھا۔

بہت بڑے نقصان کے بعد بھی میرے دوست نے ہمت نہیں ہاری اب اس کے دو لڑکے بھی جوان تھے اب وہ بڑا تاجر تو نہیں رہا تھا لیکن اس نے تجارت کا سلسلہ جاری رکھا مذکورہ بڑے نقصان کا ازالہ نہ کر پایا اس کی وجہ ایمانداری تھی یا پھر کامیاب تاجروں کی خصوصیات کی کمی!

نصف صدی سے زائد تجارت کے سلسلہ سے منسلک رہنے کے باوجود وہ اس لیول تک نہ پہنچ سکا ویسے بھی اب آہستہ آہستہ کاروبار کرنے کے تقاضے بدلنے لگے تھے تو اس نے سب کچھ بڑے بیٹے کے سپرد کر دیا اور خود اپنے جگری یاروں کو ٹائم دینے لگا لیکن اس کے یار بڑے بے وفا ثابت ہو رہے تھے جیسے سب نے یکے بعد دیگرے داغ مفارقت دینے پر اتفاق کیا ہوا ہو کبھی ایک دوست کی رحلت کی خبر ملتی تو کبھی دوسرے دوست کے دنیا چھوڑ جانے کی خبر آ جاتی میرا دوست اندر ہی اندر اپنے دوستوں کی جدائی پر غمگین تھا لیکن کتنا جھوٹا تھا ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا کہ کیسے اسے اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کا غم کھائے جا رہا ہے میں افسوس کے لئے فون کرتا تو کہتا یار بس اس کا وقت آ گیا تھا خدا کی رضا یہی تھی۔

چند دن سے میرا دیرینہ عزیز دوست سچ بولنا شروع ہو گیا تھا کبھی بچھڑ جانے والے اپنے دوستوں کو یاد کرتا تو کبھی اپنے مرحوم والدین کو اور کبھی بیرون ملک مقیم بیٹے پر زور دے کر کہتا کہ یار بتا تو کب آ رہا ہے آگے سے جواب آتا ابو کرونا ختم ہوتے ہی آتا ہوں تو دوبارہ وہی سوال دہرایا جاتا کہ یار بتا کب آ رہا ہے؟ پیچھے سے امی کہتیں کیوں اسے پریشان کر رہے ہیں کرونا ختم ہو جائے گا تو آ جائے گا۔

اور پھر 24 اپریل 2020 کا سورج میرے لئے میرے دوست سے طویل جدائی کا پیغام لے کر طلوع ہوا میں سویا ہوا تھا کہ میری بیوی ابو ابوکہہ کر رو رہی تھی میرا دوست میرا باپ اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔

ہم میں سے ہر کوئی زندگی کے جس بھی حصے میں ہو اس کا ایک دیرینہ مزدور دوست ضرور ہوتا ہے کچھ کے دیرینہ دوست داغ مفارقت دیتے ہوئے رخصت پر چلے جاتے ہیں اور کچھ خوش نصیبوں کے مزدور باپ ان کے پاس موجود ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کے لئے ایک عام مزدوروں سے بھی بڑھ کر مشقت اٹھا کر اپنی محبت کا اظہار کر تے ہیں۔ اللہ کرے کسی کا دیرینہ مزدور دوست کبھی جدا نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments