ڈھائی سو روپے


کاشف پانچ برس کا تھا کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ کاشف اپنی ماں کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا تھا۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے بمشکل اپنا اور کاشف کے کھانے کا بندو بست کرتی پاتی۔ کاشف سات برس کا ہوا تو ہمسایوں نے مشورہ دیا کہ اسے بھی کام پہ لگا دو۔ کاشف کی ماں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کاشف کو جوتے پالش کرنے کا کام دلا دیا۔

کاشف ایک دن جب اپنے ننھے ہاتھوں سے جوتے پالش کر رہا تھا تو ایک صاحب پاس سے گزرے۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس بہت ہی نفیس انسان کاشف سے مخاطب ہوا۔

”جوتے پالش کرنے کا کیا لیتے ہو“ ۔
”صاحب بیس دس روپے“ ۔
کاشف کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر وہ صاحب مسکرائے اور ایک زانو ہو کر کاشف کے پاس بیٹھ گئے۔
”صبح سے کتنے پیسے کمائے“ ۔
”ڈھائی سو روپے“ ۔
”ارے واہ تم تو بہت محنتی ہو اسکول کیوں نہیں جاتے“ ۔
” امی کہتی ہیں اسکول وہ بچے جاتے ہیں جن کے باپ زندہ ہوتے ہیں۔“ ۔

یہ سُن کر اس شخص نے سر جھکایا اور اپنے کندھے سے لیپ ٹاپ بیگ کو اُتار کر اس میں سے بچوں کا قاعدہ نکال کر کاشف کی طرف بڑھایا۔

”کاشف جھٹ سے بولا یہ کتنے کا ہے۔“ ۔
وہ شخص کاشف کی معصومیت اور خودداری دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگا ”ڈھائی سو روپے کا“ ۔

کاشف نے اپنی جیب میں سے سارے پیسے نکالے اور دس بیس کے نوٹوں کو اپنے سیاہی لگے ہاتھوں سے اکٹھا کرنے لگا اور پھر اس شخص کو تھما دیے۔

وہ شخص اُٹھا اور کاشف کے آگے ہاتھ بڑھایا۔
”آؤ چلتے ہیں۔“ ۔
کاشف حیرانی سے اسے دیکھا اور بولا۔
” کہاں؟“ ۔
”اسکول“ ۔
”مگر آپ تو کتاب دے رہے تھے۔“ ۔
” ہاں تو یہ کتاب اسکول جانے کے لیے ہی تو دے رہا تھا“ ۔

کاشف نے اپنا پالش کا سامان باندھا اور ایک دکاندار کے حوالے کر دیا اور اس شخص کے ساتھ چلنے لگا۔
آپ کا نام کیا ہے۔
”عمران“ ۔
” میں تمہارا اُستاد ہوں تم بس پڑھو گے۔ یہ کام نہیں کرو گے۔ آج سے“ ۔
کاشف خوشی کے مارے اُچھلنے لگا۔
”ٹھیک ہے۔ آج سے میں آپ کو سر عمران بولوں گا“ ۔

دونوں اسکول میں داخل ہوئے جہاں سر عمران پڑھاتے تھے۔ کاشف کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ سر عمران اسے آفس لے گئے یونیفارم دلایا اور کتابیں بھی۔ کاشف کی زندگی ایک لمحے میں بدل گئی۔ گھر آ کر ماں کو یہ سب بتایا وہ بھی بہت خوش ہوئی۔ ایسے ہی دس سال بیت گئے۔ کاشف کو جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا کوئی مشورہ چاہیے ہوتا تو سر عمران سے بلا جھجک پوچھ لیتا۔ اس کی زندگی میں باپ کی شفقت کی جو کمی تھی۔ وہ اب اسے اپنے اُستاد کی صورت میں پوری ہوتی دکھائی دیتی۔

کاشف نہ صرف محنتی اور ہونہار طالب علم تھا بلکہ ایک ذمہ دار بیٹا بھی تھا۔ اس لیے پڑھائی کے ساتھ اس نے پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کر لی، جب بی اے کے امتحانات میں کاشف نے ٹاپ کیا تو سر عمران نے اسے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا مشورہ دیا۔ اس امتحان میں بھی کاشف نے بہت اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور مجسڑیٹ کا عہدہ حاصل کیا۔

کاشف کا آفس میں پہلا دن تھا۔ آفس جاتے ہوئے کاشف نے اچانک گاڑی اپنے اسکول کی جانب موڑ لی۔ اسکول جاتے جاتے اسے سب پرانی یادیں آنے لگی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سر عمران سے ملنا اور اُسکا اسکول میں ان کے ساتھ آنا ابھی کل ہی کی بات ہو۔ وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ پتہ بھی نہ چلا۔

یہ سوچتے ہوئے وہ سر عمران کے آفس میں داخل ہوا اور سلام کے بعد ہاتھ ایسے ہی آگے بڑھایا جیسے پہلی ملاقات میں سر عمران نے کاشف کی جانب اسکول جانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔ مگر اس بار سر عمران کی نظروں میں سوال تھا اور کاشف کی نظروں میں خوشی کے آنسو، کاشف نے اپنی نوکری کی خوشخبری اپنے اُستاد کو سنائی اور پھر دونوں ایک دوسرے سے ایسے بغلگیر ہوئے جیسے باپ بیٹے سے ہوتا ہے۔

وہ ڈھائی سو روپے جو کاشف کی ایک دن کی کمائی تھے۔ اس کے بدلے اس کے اُستاد نے اسے عمر بھر کی خوشی اور وہ علم دیا جس کے لیے اگر اس دنیا کی دولت بھی اس اُستاد کو دے دی جائے تو وہ کم ہو گی۔ اُستاد اور شاگرد کا رشتہ بھی ایسے ہی محترم ہے۔ جیسے والدین اور اولاد کا رشتہ ہے۔ یہ لوگ ہمیں مٹی سے سونا بنا دیتے ہیں۔ جس طرح ہم والدین کے احسانات نہیں اُتار سکتے اسی طرح جو قیمتی وقت اساتذہ ہمیں دیتے ہیں اور جو محنت وہ ہمارے لیے کرتے ہیں۔ اس کا صلہ ہم نہیں دے سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments