اچُھوت خُون (سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ)



تحریر: انیلا ’نِیل‘
ترجمہ: یاسر قاضی
* * * * * * * * * *
”تَنُو! او تَنُو۔ !

شام ہو چلی۔ یہ لڑکا نہ جانے کہاں غائب ہے۔ کہا بھی تھا کہ وقت پر دوائی لے کر سیدھے گھر آنا۔ مگر مجال ہے کہ یہ کوئی بھی کام وقت پر کرے۔ ”بیگم صاحبہ نے بِلا توّقف بڑبڑاتے، تَنُو کو پکارتے ہوئے، زور سے سرونٹ کوارٹر کا دروازہ کھولا۔

بوسیدہ دروازے کے طاق نے بیگم صاحبہ کی بے رحمی سے لگی چوٹ پر جیسے تکلیف سے پکارا۔

تَنُو نے اپنا کام چھوڑ کر اپنے کوارٹر کے دروازے پر کھڑی بیگم صاحبہ کی جانب گھبراہٹ میں آنکھیں پھاڑ کے دیکھا۔

”تمہیں میں نے دوائی لینے کے لیے بھیجا تھا اور تم یہاں آرام فرما رہے ہو۔ ؟“ بیگم صاحبہ نے، تَنو کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا۔

”جی بیگم صاحبہ! ۔ ابھی لایا۔“ تَنُو نے فوراً چار پائی سے اُچھل کر اپنی چپل پہنی اور چل پڑا۔ اس نے ابھی بنگلے سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ کانوں میں پھر بیگم صاحبہ کی آواز پڑی: ”دیر مت کرنا! ایسا نہ ہو کہ تجھے ڈھونڈھنے کے لیے پھر مجھے تیرے پیچھے آنا پڑے۔ سمجھ گئے ناں! ؟“

”جی جی بیگم صاحبہ! بس یُوں گیا اور یُوں آیا۔“
تنُو نے دوڑ لگائی کہ کہیں بیگم صاحبہ دوبارہ نہ جِھڑک دے۔
تَنُومَل، اپنی مالکن، بیگم محسن مرزا کی ایسی باتیں سننے کا اب عادی ہو چُکا تھا۔

پندرہ برس کی عمر میں جب وہ، اس گھر میں آیا تھا تو اس کے آنکھوں کے آگے اپنے گھر والوں کی بُھوک اور بدحالی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ اُس برس ان کا علاقہ قحط کی وجہ سے ویران ہو چکا تھا۔ پیڑ، درخت، پُھول بوٹے سُوکھ رہے تھے۔ مال مویشی مر رہے تھے۔ سَینکڑوں کی تعداد میں بیل بکریاں مر چکی تھیں۔ ان کے گاؤں اور اس کے گرد و نواح کے لوگ، بیراجی علاقوں کی طرف ہجرت میں مصروف تھے۔ والد کے دیہانت کے بعد تَنُو، اپنی ماں کے ساتھ ساتھ اپنے سات بھائیوں کا اکیلا آسرا تھا۔

ویسے تو جیسے تیسے ان کا گزر بسر ہو جاتا تھا، مگر اس ظالم قحط کے بعد جب ان کی اکیلی گائے بھی مر گئی، تو ان کی ہمّت جواب دے گئی اور تنُو اپنے چچا کے خاندان کے ساتھ شہر چلا آیا۔ مزدوری کے لیے چند ماہ ٹھوکریں کھانے کے دوران وہ کئی بار شش و پنج کا شکار ہوا، مگر گاؤں واپس جانے کا خیال ہی حلق میں پھنسے کانٹے کی طرح اس کی جان نکال دیتا تھا۔ بالآخر، شہر کے ایک ریسٹورنٹ پر مزدوری کر کے چار پیسے کما کر گھر والوں کا پیٹ پالنے لگا۔

ایک دفعہ وہ معمول کے مطابق ریستوراں کی صفائی کر رہا تھا۔ اس دن ہوٹل پر لوگوں کا رش معمول سے کچھ زیادہ تھا، لہٰذا کام کرنے والے دھاڑی دار لڑکوں پر سیٹھ کا شدّ و مَد سے چِلّانا جاری تھا اور اس کی فرعونیت اپنے عرُوج پر تھی۔ ٹیبل صاف کر کے تنّو جیسے ہی اپنا پسینہ پونچھنے کے لیے گھڑی بھر کے لیے ایک کونے میں کھڑا ہوا، تو عین اسی وقت سیٹھ کی خُونخوار نظر اس پر پڑی۔

”ارے! تم کہاں کے لاٹ صاحب ہو! ؟ دیکھتے نہیں کہ کتنا کام ہے۔ جاؤ جا کر دوسرے لڑکوں کا کام میں ہاتھ بٹاؤ!“

تَنُو نے ایک طرف دیکھا تو سامنے اس کا ایک ساتھی ویٹر کھانے سے بھرا بڑا ’ٹِرے‘ ہاتھ میں پکڑے آ رہا تھا۔ سیٹھ کی آواز پر تنُّو نے تذبذب کا شکار ہو کر عُجلت میں اس بیرے سے وہ طباق لے کر پکڑنے کی کوشش کی، جس کے لیے وہ ویٹر ذہنی طور پر تیّار نہیں تھا، اس لیے وہ ٹِرے جا کر اس کے پیروں میں گرا۔ سیٹھ نے اس قدر کھانا ضائع ہوتے ہوئے دیکھا، تو تنُو پر آگ بگلولا ہو گیا اور اسے سبق سکھانے کے لیے تیزی سے ابھی اس کی جانب بڑھا ہی تھا، کہ برابر والی میز پر بیٹھے ایک صاحب نے اُٹھ کر سیٹھ کو تنُو پر ہاتھ اٹھانے سے روک دیا۔

تنُو نے اپنے شہر آنے کے بعد شاید پہلی مرتبہ کسی کو خود پر اتنا مہربان دیکھا تھا، جس نے مشکل وقت میں اس کی حمایت کی تھی، جو اس کو جانتا تک نہ تھا۔ یہ صاحب، شہر کے معزز، مسٹر محسن مرزا تھے۔ جنہوں نے نہ صرف ہوٹل کے سیٹھ کو معصُوم تنُو پر تشدد کرنے سے روکا، بلکہ اسے ضائع ہونے والے کھانے کی رقم بھی اپنی طرف سے ادا کی۔ پیسے ملنے کے بعد سیٹھ نے اپنی بَک بَک بند تو کر لی تھی، مگر اس نے تنُّو کو اسی وقت کام کرنے سے منع کر دیا۔

تنُو اپنی آنکھوں میں آنسُو لیے، نا اُمیدی سے ریستوراں سے باہر نکلا، تو پیچھے اسی مہربان شخص کو بھی ریستوراں سے نکلتے دیکھا، جس نے اس معصوم لڑکے کے چہرے پر مایوسی کے آثار دیکھ کر، اس کے سَر پر ہاتھ رکھا، اور پُوچھا:

”گھر کا کم کر لو گے؟“
”جی جناب۔“
”تو پھر چلو میرے ساتھ!“

اس دن تَنُّو نے، محسن صاحب کے گھر میں پہلی مرتبہ قدم رکھا تھا، جہاں وہ نہ صرف ان کے گھر کا کام کاج کرنے لگا، بلکہ رہنے بھی مرزا صاحب کے بنگلے کے پیچھے سرونٹ کوارٹر میں لگا۔ دِن بَدِن تنّو کے دل میں محسن صاحب کے لیے عزت اور احترام میں اضافہ ہوتا گیا۔ محسن صاحب اور ان کے گھر کے باقی افراد کا تنُو کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک تھا۔ بس اسے جو بات پریشان کیے رکھتی تھی، وہ یہ تھی کہ مُحسن صاحب کی بیوی، مسز زینب محسن کا اس کے ساتھ رویّہ انتہائی سخت، نامناسب اور نفرت انگیز تھا۔ بیگم صاحبہ نے، تنُو کو کڑوی دوائی سمجھ کر اپنے نوکر کے طور پر برداشت تو کر لیا تھا، مگر اس کے اوپر کئی پابندیاں لگا رکھی تھیں، مگر محسن صاحب کے پیار بھرے برتاؤ کی وجہ سے تنُو، بیگم صاحبہ کی سختی پر زیادہ نہیں سوچتا تھا۔

فارمیسی سے دوا لے کر اس نے سیدھا آ کر بیگم صاحبہ کو دی اور اپنے کوارٹر کی طرف جانے لگا۔ بیگم صاحبہ نے اسے پیچھے سے آواز دی:

”بات سن! میں اور صاحب آج رات کسی دعوت میں جا رہے ہیں۔ ہمیں دیر ہو جائے گی۔ تیرا کھانا میں نے باورچی خانے کے باہر رکھ دیا ہے۔ کھانا کھا کر برتن باہر ہی دھو کر رکھ دینا!“

”جی بیگم صاحبہ!“ تنُّو نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

آج اسے اس گھر میں رہتے اور کام کرتے لگ بھگ تین ساڑھے تین برس ہو گئے تھے، مگر بیگم صاحبہ نے روز کی طرح اپنی بات دہرائی۔ تنُّو کا بیگم صاحبہ کے کمرے اور باورچی خانے میں داخل ہونا تو بالکل منع تھا ہی، مگر اس کے کھانے پینے کے برتن نہ صرف الگ تھے، بلکہ ان برتنوں کے باورچی خانے میں دھونے پر بھی پابندی تھی۔ تنُو کے استعمال والے برتن باورچی خانے سے باہر ہی دُھل کر، باہر ہی رکھے جاتے تھے۔ اسے پُورا پُورا احساس تھا کہ بیگم صاحبہ اسے ”اچُھوت“ سمجھتی ہے اور اس بنا پر اس سے نفرت کرتی ہے۔

اُس رات وہ معمُول کے مطابق کھانا کھا کر، اپنے کوارٹر کے کمرے کی طرف سونے کے لیے گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھ لگ گئی۔ ابھی وہ سویا ہی تھا کہ اس کے کانوں پر کسی شور کی آواز پڑی، جیسے کوئی چِیخ چِیخ کر رو رہا ہو۔ تنُّو فوراً اپنے کوارٹر سے باہر آیا۔ یہ شور، مرزا صاحب کے بچّوں اور گھر کے باقی افراد کا تھا۔ دعوت پر جاتے ہوئے محسن صاحب اور بیگم صاحبہ کی گاڑی کا کسی ٹرک کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اور دونوں کو جائے حادثہ سے ہی شہر کے بڑے ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

گھر والے ہسپتال کی طرف روانا ہوئے۔ تنُو بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ ہسپتال پہنچ کر معلُوم ہوا کہ محسن صاحب تو ہوش میں آ چکے تھے اور ان کی حالت خطرے سے باہر تھی، مگر بیگم صاحبہ ابھی بھی بے ہوش تھیں۔ ڈاکٹرز آپریشن تھیئٹر میں ان کی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے سَر میں خطرناک زخم لگنے کی وجہ سے ان کا بے انتہا خُون بہہ چکا تھا۔ گھر والے خون کا انتظام کرنے میں لگ گئے۔ تنُو بھی ایک کونے میں پریشان بیٹھا، صاحب اور بیگم صاحبہ کے چھوٹے بچّوں کو دیکھ کر دونوں کی صحتیابی کی دعا کرتا رہا۔ اسے پتا ہی نہ چل سکا کہ کس گھڑی اس کے نوخیز گالوں پر اشک اُمڈ آئے۔

محسن مرزا صاحب کی نیکیاں اور اس کے معصوم بچّوں کی دعائیں رنگ لائیں۔ بیگم صاحبہ کچھ ہی دنوں میں صحتیاب ہو کر ہسپتال سے گھر واپس آ گئیں، مگر ہسپتال سے واپسی کے بعد بیگم زینب کو جیسے چُپ سی لگ گئی تھی۔ اس کے روّیے میں بے انتہا تبدیلی آ چکی تھی۔ اب اس نے پہلے کی طرح بات بات پر تنُّو کو ڈانٹنا چھوڑ دیا تھا۔ اسے اب کوئی ضروری کام ہوتا تھا تو وہ اپنے بچّوں کو ہی بول دیتی تھی، کوشش کرتی تھی کہ تنُّو سے کم از کم بات کرے اور کم از کم کام کروائے۔

مسز مُحسن کی اس چُپ کو کئی دن گزر گئے، مگر اس کی خاموشی کو آواز نہ مل سکی۔ ایک شام تنّو نے دیکھا کہ بیگم صاحبہ گھر کے آنگن میں لگے پرانے برگد کے درخت تلے اداس کھڑی نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔ اس کی نظریں سرونٹ کوارٹر کو گُھور رہی تھیں۔ سانجھ ہونے کو تھی۔ آسمان پر پرندوں کے جھنڈ، اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ ڈھلتے سُورج کے دلفریب نظارے، دن کے اختتام کی منادی کر رہے تھے۔ چڑیاں اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹنے لگی تھیں۔ ان کی آوازیں، وجود کی گہرائیوں میں اُتر کر اسے شانت کرنے کی سعی کر رہی تھیں۔ مگر مسز محسن مرزا کے دل کو چین نہیں تھا۔ اس کے دل و دماغ پر تو بس ایک ہی بات سوار تھی، جو اسے محسن صاحب نے ہسپتال سے آنے کے کچھ دنوں بعد بتائی تھی۔

”زینب! تمہاری یہ نئی زندگی ہمارے لیے اللہ کی طرف سے احسان ہے۔ جس کے لیے ہم اپنے پروردگار کے جتنے بھی شکرانے بجا لائیں، کم ہیں۔

ہاں! مگر اس کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی ہے، جس کے لیے میں تمہیں کہوں گا کہ تم اس کی بھی شکر گزار رہو! ”

بیگم نے تجسُّس سے سوالیہ نگاہوں سے شوہر کی جانب دیکھا۔ محسن صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
”تَنُو۔ !
جی زینب۔ اپنا ملازم تنُّو مَل۔ !
اگر تنُو اس دن بروقت تمہیں اپنا خون عطیہ نہ کرتا، تو تم شاید آج ہمارے ساتھ نہ ہوتیں۔ ”

محسن صاحب کی یہ بات بیگم صاحبہ کی سماعت پر جیسے کسی بجلی کی طرح آن گِری۔ یہ معلوم ہونے سے اس کے اندر میں شکرگزاری، شرمساری اور اپنے پہلے والے روّیے پر پشیمانی کا مِلا جُلا موسم اُترا۔ اور لمحے بھر میں گھر کر گیا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ اس کی ہمّت نہیں ہو پائی کہ وہ تنُّو سے نظریں ملا سکے۔ جس کے برتنوں تک کو وہ اَچھوت سمجھ کر اُن کو چھونا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ اب اس کا اچھوت خُون اس کی رگوں میں دوڑ کر اس کو زندگی بخش رہا تھا۔

سرونٹ کوارٹر کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے تنُو کو دیکھا۔ مَن ہی من پشیمان ہوئی، نم آنکھوں سے اس کی طرف بڑھنے لگی کہ اچانگ ٹھوکر کھائی اور خود کو گرتے گرتے بچایا۔ دُور سے تنُو ”بیگم صاحبہ۔“ کہتا، دوڑتا اس کی جانب آگے بڑھا۔

پیڑ پر واپس آئی چڑیاں، جو خاموش ہو رہی تھیں، اس کی آواز پر دوبارہ ماحول میں شور مچانے لگیں۔ شاید یہ کسی کے اندر کے جاگنے کا شور تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments