شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں


سیاست کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس عمل میں مستقبل کی بجائے ماضی میں رہ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے مستقبل کی تصویر کم اور ماضی کا ماتم زیادہ ہوتا ہے۔ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود ایک بڑے سیاسی گرداب کا شکار ہیں اور اس کی وجہ ان کے داخلی اور خارجی مسائل ہیں۔ ان کی جماعت سے جڑے لوگ جتنا مرضی اس با ت پر زور دیں کے جماعت میں شامل لوگ اور قیادت یکسوئی کے ساتھ ایک متفقہ ایجنڈے پر کھڑی ہے، درست تجزیہ نہیں۔

مسلم لیگ ن عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ کی قیادت نواز شریف اور مریم نواز کے پاس ہے، جبکہ دوسرے حصہ کی قیادت شہباز شریف اور خواجہ آصف سمیت کچھ اور مسلم لے گی راہنما کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تقسیم بنیادی طو رپر بیانیہ کی ہے۔ شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ کی سیاست رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کے بیانیہ کی حقیقی کہانی جمہوریت یا قانون سمیت پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں بلکہ اقتدار کے کھیل کے گرد گھومتی ہے۔ اگرچہ یہ بات بہت سے مسلم لے گی یا ان کا حمایت یافتہ اہل دانش نہیں مانتا اور ان کے بقول نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست جمہوری جدوجہد کے گرد ہی گھومتی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اس نکتہ نظر کو تسلیم کرلیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ پارٹی کے سربراہ نواز شریف نے کبھی بھی اپنے بھائی کی پس پردہ قوتوں کے ساتھ میل ملاپ، باہمی گٹھ جوڑ، اقتدار یا طاقت کے حصول میں اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کا حصول، پر کبھی کوئی کارروائی نہیں کی یا حتی تک کہ ان کی کوئی باز پرس بھی نہیں ہوئی۔ شہباز شریف بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نواز شریف یا مریم نواز کا اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ کا بیانیہ غلط تھا اور وہ اس کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کرتے۔

نواز شریف اور مریم نواز کے بقول انہوں نے 2018 کے انتخابات کو قانون، پارلیمنٹ، جمہوریت کی بالادستی اور فوجی مداخلت کے خلاف لڑا تھا۔ جبکہ شہباز شریف ایک بڑے معروف کالم نگار کے ساتھ گفتگو میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے 2018 کے انتخابات، نتائج اور مسلم لیگ ن کی حکومت بننے اور خود ان کے وزیر اعظم بننے پر اسٹیبلیشمنٹ سے تمام معاملات طے ہوگئے تھے جن میں کابینہ کے ناموں کی منظوری بھی تھی، لیکن ان کے بقول نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ نے یہ کھیل پلٹ دیا۔

یعنی ایک بھائی جمہوریت کی جنگ جبکہ دوسرا بھائی اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت سے اقتدار کے حصول کی جنگ لڑرہا تھا۔ دراصل یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بیانیہ کی جنگ ہو یا جمہوریت، قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی یا اسٹیبلیشمنٹ یہ محض ایک بڑے سیاسی ہتھیار ہیں جو شریف خاندان سمیت بہت سی دیگر سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت اسے ”بطور ہتھیار“ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نواز شریف اپنے چہرہ کو جمہوری بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ دوسرا بھائی بڑے بھائی کی حمایت سے اسٹیبلیشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف نے 2018 کے انتخابات کے حوالے سے جو گفتگو معروف کالم نگار سے کی کیا وہ بات سادگی میں کہہ گئے یا ایک سوچی سمجھی سوچ کا حصہ ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف کا حالیہ اعتراف ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ کیونکہ ابھی تک انہوں نے اس بیان کی تردید نہیں کی۔ دراصل وہ اس بیان سے اپنی جماعت کے قومی، صوبائی، سینٹ سمیت سرکردہ راہنماؤں کو یہ صاف پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ہی واحد فرد ہیں جو اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے مستقبل میں بھی اپنے لیے، پارٹی اور ارکان اسمبلی کے لیے بھی اقتدار کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے کھل کر کہہ دی ہے کہ فوج کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا ہوگا اور ا س کے بغیر نہ تو ملک چل سکتا ہے اور نہ ہی ہمیں فوج سے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی ان کے بقول اگر وہ پارٹی کے سربراہ ہیں تو یہ ہی بیانیہ آگے بڑھے گا اور نواز شریف کے بیانیہ کی کوئی حیثیت نہیں۔

یہ با ت سمجھنے کی ہے کہ شہباز شریف کی اس بات کا مقصد کے پیچھے تین اور عوامل ہیں۔ اول وہ اس نکتہ نظر کے اسٹیبلیشمنٹ آج بھی ان ہی کے ساتھ ہے اپنے ارکان اسمبلی کو پیغا م دیا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن میں ہی رہیں اور مستقبل ہمارا ہے۔ کیونکہ شہباز شریف کو اندازہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سطح پر ایک گروپ موجود ہے جو پی ٹی آئی کے ساتھ رابطوں میں ہے۔ اس لیے شہباز شریف کا بیان پارٹی کو یکجا رکھنا، خاص طو رپر پارٹی کے ارکان اسمبلی کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ ان ہی کہ بیانیہ کے ساتھ کھڑے رہیں۔

دوئم شہباز شریف کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ مریم نواز کچھ سینئر قیادت کے ساتھ مل کر اپنے گروپ کو پارٹی میں منظم کررہی ہیں جو ان کی قیادت کو بھی کمزور کرے گا اور پارٹی کے اندر پہلے سے موجود گروپ بندی کو اور زیادہ تقویت دے گا۔ سوئم وہ اب بھی اسٹیبلیشمنٹ کو صاف پیغام دے رہے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور و ہ مستقبل کی پیش قدمی میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔

لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ ووٹرز نواز شریف کی طرف دیکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مریم نواز اس کا اہم متبادل ہے۔ جبکہ شہباز شریف کا خیال ہے کہ ووٹرز کے مقابلے میں اصل طاقت ارکان اسمبلی کی ہوتی ہے جو انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ شہباز شریف یا حمزہ شہباز میں وہ دم خم نہیں جو مریم کے پاس ہے اور وہی مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے نام پر ایک بڑی انتخابی مہم سجاسکتی ہیں۔

اس لیے شہباز شریف اب بھی مریم کی سیاست کو اپنے لیے بھی اور حمزہ شہباز کے لیے بھی بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کو لگتا ہے اسٹیبلیشمنٹ بھی مریم کے مقابلے میں ان ہی کی حمایت کرے گی۔ جہاں تک شہباز شریف کی دوبارہ وطن واپسی کا سوال ہے تو بہت سے لوگوں نے یہ خبر پھیلائی کہ ان کی واپسی اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے ہوئی ہے اور اسٹیبلیشمنٹ کو ان کی مدد درکار ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے داخلی مسائل اور قومی وصوبائی اسمبلی میں فاورڈ بلاک کی خبروں کی وجہ سے ان کو واپس آنا پڑا ہے تاکہ وہ پارٹی پر اپنی گرفت اور ارکان اسمبلی کو اپنی قیادت میں یکجا رکھ سکیں۔

شہباز شریف کو لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت ناکام ہوگئی ہے اور فوج ان کے متبادل کے طور پر سوچ رہی ہے یا مسلم لیگ ن یا شریف فیملی ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس سوچ اور فکر کو اجاگر کررہی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ عمران خان سے مایوس ہے یا دونوں میں بڑ ا ٹکراؤ ہے جس سے اس حکومت اور خود عمران خان کا مستقبل تاریک ہے۔ مسلم لیگ ن کے حامی سیاست دان، اہل دانش یہ ہی سمجھتے ہیں کہ ٹکراؤ کی یہ کیفیت پیدا کرکے وہ حکومت کو ایک بڑے دباؤ میں لاسکتے ہیں۔

حالانکہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ میں کوئی بڑا ٹکراؤ ہے یا اس صورتحال کا کوئی بڑا فائد ہ اٹھایا جاسکتا ہے، درست تجزیہ نہیں۔ عمران خان کی حکومت اپنے تمام تر داخلی مسائل کے باوجود بڑی حد تک خطرات سے باہر آگئی ہے۔ خیال یہ ہے کہ عمران خان اب ایک پاپولر سیاست کی مدد سے اپنی سیاسی مقبولیت کے بھرم کو قائم رکھنے کا تفصیلی منصوبہ بھی بناچکے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مقابلے میں جو حزب اختلاف ہے وہ اس حد تک کمزور ہوگئی ہے کہ یہ ہی اصل میں ان کی سیاسی طاقت بھی ہے۔

حزب اختلاف نہ تو ایک ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسا ٹھوس پلان ہے جو ان کے بقول جو بحران موجود ہے وہ اسے حل کرسکیں گے۔ اس لیے شہباز شریف کی عمران خان کی حکومت میں سیاسی مہم جوئی ناکام ہوگی۔ ان کے پاس اگر کچھ کرنے کو ہے تو وہ اول اپنی قیادت اور بیانیہ کے حوالے سے نواز شریف اور مریم کی مکمل حمایت حاصل کریں اور وہ کھل کر کہیں کہ ہم شہباز شریف اور اس کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہیں، جو ممکن نہیں۔ کیونکہ نواز شریف اور مریم نواز کیوں چاہیں گے کہ ان کا کردار ختم اور شہباز شریف یا حمزہ کا کردار بڑھ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments