محمّد اسمٰعیل عُرسانی۔ سندھی علم و ادب کا روشن حوالہ


یہ ہر دور میں ہر خطّے کی سماجی، سیاسی، ادبی خواہ ثقافتی تاریخ کا المیہ کہیے، یا فطرت کا دستور، کہ تاریخ ہمیشہ ہر دور کے چند ہی ناموں کو رہتی دُنیا تک یاد رکھتی ہے، جبکہ اُس دور کے کئی اور نام وقت کی دھول میں گمگشتہ ہو جاتے ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں کارہائے نمایاں تو انجام دیے ہوتے ہیں، اور اپنے شعبے کی تاریخ کی تعمیر میں اُن کا بہت بڑا حصّہ بھی ہوتا ہے، مگر وہ نام نکھر کر سامنے نہیں آ پاتے۔ مثال کے طور پر 19 ویں صدی میں شاعری کے میدان میں ادب کے کئی روشن ستارے اُردو ادب کے اُفق پر اپنی ضوفشانی سے ٹمٹما رہے تھے، مگر ”غالب“ جیسا خاورِ درخشاں ایسا چمکا، کہ باقیوں کی روشنی اس کے آگے ماند پڑ گئی۔

اُس سے پہلے والی صدی میں ویسے تو اُردو ادب، بالخصوص شاعری میں بہت ساری آوازیں گونج رہی تھیں، مگر ”میر“ کی صدا سب سے زیادہ واضح اور یکتا تھی، کہ ہم 18 ویں صدی کا نام لیتے ہی ”میر“ کو سوچتے ہیں۔ اسی طرح غالب کے بعد والی صدی، یعنی ہماری صدی، 20 ویں صدی میں ”اقبال“ جیسی بھرپُور آواز اور کوئی سنائی نہ دی، جب قیام ِ پاکستان کے بعد اس صدی کے نصفِ دیگر میں ادب نے اپنی کروٹ بدلی تو جدید ادب میں ”فیض“ اور ”راشد“ کی آوازوں نے جدید شاعری کی باقی تمام آوازوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے بھولے بسرے اہم کرداروں کا ذکر نئی نسل تک پہنچایا جائے، جن کی خدمات سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی آبیاری ہوئی۔ اُسی سلسلے میں آج سندھی ادب کی کہکشاں کے مُنوّر ستارے، معروف شاعر، نثر نویس اور عظیم ڈرامہ نگار، محمد اسمٰعیل ”فدا“ عُرسانی کا مختصر ذکر کیا جا رہا ہے، جن کا ڈرامہ ”بدنصیب تھری“ سندھی ادب کا وہ شاہکار ڈرامہ ہے، جو نہ صرف اسٹیج پر کئی بار کھیلا جا چکا ہے، اور پاکستان ٹیلی وژن سے متعد د زبانوں میں پیش ہو کر نشر ہو چکا ہے، بلکہ سندھی ادب کے طلبہ و طالبات آج تک اُسے سندھی نثر یا ڈرامے کے پرچے میں نہ صرف پڑھتے ہیں، بلکہ اُسی سے سندھی ڈرامے کی ارتقاء کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔

محمّد اسمٰعیل عُرسانی، زیادہ تر شاعروں ادیبوں کی طرح غریب یا مُتوسط گھرانے سے متعلق نہیں تھے، بلکہ اُن کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا۔ وہ سابقہ ضلع حیدرآباد اور موجودہ ضلع مٹیاری کے مشہور شہر ”ہالہ“ کے رہنے والے تھے، جو بعد میں اپنا مسکن تبدیل کر کے حیدرآباد کے علاقے ”گنج شاہ جو پڑ“ میں آ کر سکونت پذیر ہوئے۔ محمّد اسمٰعیل عرسانی کی پیدائش 7 ستمبر 1906 ء کو ہالہ میں ہوئی۔ ان کی تعلیم بی۔ اے، بی۔

ٹی۔ تھی اور وہ محکمہء تعلیم کے عملدار تھے۔ وہ پہلے اس محکمے میں ”اسسٹنٹ ماسٹر“ کے عہدے پر تعینات تھے، بعد ازاں وہ ترقی پا کر ”ایجوکیشنل انسپکٹر“ اور اس کے بعد ”اسسٹنٹ ڈائریکٹر“ کے عہدے تک پہنچے اور اسی حیثیت سے 60 سال کی عمر میں 1966 ء میں ریٹائر ہوئے۔ سندھ کے اہم شاعر و دانشور، جناب مخدوم محمّد زمان ”طالب المولیٰ“ اپنی تصنیف ”یادِ رفتگاں“ میں محمّد اسمٰعیل عُرسانی کا مختصر احوالِ زیست لکھتے ہوئے بتاتے ہیں : ”ان کے والد ایک چھوٹے زمیندار تھے۔

“ فدا ”کی ابتدائی تعلیم کا دور 1912 ء سے شروع ہوا۔ انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول حیدرآباد، سندھ مدرسة الاسلام کراچی، نَوَلرائے ہیرانند اکیڈمی حیدرآباد میں تعلیم حاصل کی۔ 1925 ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا۔ سندھ نیشنل کالج حیدرآباد اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انٹرمیڈیٹ آرٹس، ڈی۔ جے۔ سندھ کالج کراچی سے جونیئر اور سینئر بی۔ اے۔ کے دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1929 ء میں بمبئی یونیورسٹی میں امتحان دیا، جس میں پوری بمبئی یونیورسٹی میں نمایاں نمبر حاصل کیے۔

چوتھی کلاس سے بی۔ اے۔ تک، فارسی اور انگریزی زبانیں، ان کی ثانوی تعلیم کا حصّہ رہیں۔ 1925 ء میں سندھ مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کی پہلی کانفرنس، حیدرآباد کے ہومسٹیڈ ہال میں زیرِ صدارت شمس الدّین“ بُلبُل ”اور میرزا قلیچ بیگ منعقد ہوئی، جس میں آپ نے اپنا کلام پڑھا۔ ان کا قلمی شاہکار“ سیرِ ریگستان ”ہے جس کی تحسین کرتے ہوئے ایک خاص تقریب میں علّامہ آئی آئی قاضی نے اُنہیں ہار بھی پہنایا تھا۔“

محمّد اسمٰعیل عرسانی ادب کے میدان میں، شاعری خواہ نثر، دونوں میدانوں کے سپاہی رہے۔ بنیادی طور پر اُن کی قلم سے دوستی کا آغاز شاعری کے ذریعے ہوا، جب وہ ”فدا“ کے تخلص سے کلام کہنے لگے۔ نثر کے میدان میں اُن کی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں۔ اُن کے حصّے میں جن اہم تصانیف کے ذریعے سندھی ادب کی خدمت کا کام آیا، اُن میں ”بدنصیب تھری“ (ڈرامہ۔ 1947 ء) ، ”نقشِ عمل“ (اخلاقیات۔ 1950 ء) ، ”خیال خاطر“ (مضامین۔

1951 ء) ، ”ڈزن ڈائیلاگ“ (ڈرامہ۔ 1952 ء) ، ”سیرِ ریگستان“ (ثقافتی تاریخ۔ 1952 ء) ، ”سندھی سباجھڑا“ (ثقافت۔ 1953 ء) ، ”سورٹھ راء ڈیاج“ (ڈرامہ۔ 1955 ء) ، ”حسن پروین“ (ڈرامہ۔ 1956 ء) ، ”تاریخِ اسلام“ (تاریخ۔ 1956 ء) ، ”دل کُشا“ (ڈرامہ۔ 1960 ء) ، ”مضمون نویسی“ (دو جلدیں۔ 1966 ء) ، ”چار مقالا“ (مضامین۔ 1967 ء) ، ”تعلیم جا اصول ائیں طریقا“ ( 1970 ء) اور ”سکھر سیئی ڈینہں“ (خود نوشت۔

1985 ء) شامل ہیں۔ جن کے علاوہ درسی نوعیت کی اُن کی لکھی ہوئی کئی کتابیں آج تک کورس کا حصہ ہیں۔ ان کتب کے علاوہ اُن کی 1980 ء میں سندھ کے فطری جانداروں، کیڑے مکوڑوں اور جڑی بُوٹیوں سے متعلق شایع ہونے والی یکتا کتاب ”نیاریوں وَتھوں“ (ترجمہ: منفرد موجودات) بھی اپنی مثال آپ ہے، جو اُن کی مہارت کا موضوع (نباتیات و حیوانات) ناں ہونے کے باوجود بھی اُن کی اپنی سر زمین کی ہر چیز سے محبت کی انمول مثال ہے، جس کتاب کو کم از کم اُردو اور انگریزی میں ترجمہ ضرور ہونا چاہیے۔

اُن کی کتاب ”سندھی سبھاجڑا“ میں سندھ میں رہنے والے لوگوں کے ظاہری خواہ باطنی خصائل اور ثقافتی حُسن کا اس قدر دلفریب انداز میں ذکر کیا گیا ہے، کہ جس کو پڑھ کر نہ صرف اِس خطے سے متعلق لوگوں کی نفاست اور مجموعی خوبیوں کا بہت اچھے انداز میں پتہ چلتا ہے، بلکہ قاری، عرسانی کے اندازِ تحریر اور اندازِ بیاں کا معترف ہوئے بغیر بھی رہ نہیں سکتا۔ جس میں اس سرزمین سے متعلق لوگوں کی امانت داری، سُخنوری، دینداری، بہادری، مہمان نوازی، خواہ وفاداری کا بہت ہی خوبصورت انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عُرسانی کی یہ کتاب، رچرڈ فرانسز برٹن کی اُس کتاب کا بہت ہی سنجیدہ اور دو ٹوک جواب ہے، جس میں برٹن کو وادیٔ مہران کے لوگوں کی صرف خامیاں ہی نظر آئی ہیں۔

محمّد اسمٰعیل عُرسانی کے تمام ڈرامے بھی اِس خطے کے لوگوں کی ثقافت کو بہ طرزِ اَحسن ظاہر کرنے والے شاہکار ہیں، جس میں یہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا فنکارانہ انداز میں اظہار کیا گیا ہے۔ اُن کے ڈرامے مکالموں، واقعہ نگاری اور منظر نگاری کی وہ حسین مثال ہیں، جن کو ادب کے طلبہ و طالبات مثال کے طور پر لے کر اچھا ڈرامہ تحریر کرنے میں اپنا معاون بنا سکتے ہیں۔ عُرسانی کی عرق ریزی کی بہترین مثال بنے ہوئے ان کے ڈرامے، اُنہی کے دور کے ان کے ہمعصر، عظیم ڈرامہ نویسوں محمّد عثمان ڈیپلائی، پروفیسر منگھارام ملکانی اور دیوان خانچند دَریانی کے تحریر کردہ ڈراموں کی طرح ادب کے شاہکار نظر آتے ہیں۔ محمد اسمٰعیل ”فدا“ عُرسانی نے نومبر 1986 ء میں 80 برس کی عمر پا کراس دنیائے فانی سے کُوچ کیا۔

دورِ حاضر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ محمّد اسمٰعیل عُرسانی جیسے گلشنِ ادب کے پُر نکہت پھُول کی مہک کو، نئی نسل تک پہنچانے اور ہر عمر کے طالب العلم کو اُن کی سوانح سے آگاہ رکھنے کے لئے اُن کے احوالِ زیست کو کورس میں شامل کیا جائے اور ایسے ہیروز کی تصاویر، ناموں اور کارناموں سے نوجوانوں کو آگاہی دی جائے اور بھاری بجٹ خرچ کرنے والے سرکاری ادبی و ثقافتی اداروں کو چاہیے کہ عُرسانی اور اُن جیسے ادیبوں اور دانشوروں کے ادبی کام کے تراجم معیاری انداز میں مختلف زبانوں میں کروائے جائیں اور دورِ حاضر کے ٹی وی چینلز کو چاہیے کہ ایسے ڈرامہ نویسوں کے ڈراموں کو جدید انداز میں پیش کر کے اِس خطّے کا اصل مزاج اور ثقافتی انداز دُنیا تک پہنچائیں، نہ کہ یہاں کے لوگوں کو چور، ڈاکو اور مجرم دکھا کر ان کے بارے میں غلط تاثر عام کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments