کتابوں کا خدا اور ہے اور بابوں کا خدا اور


حال ہی میں اک معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ڈاکٹر ذاکر اک ہندو نوجوان سے مذہبی اعتقاد کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔

ڈاکٹر صاحب نے ہندو نو جوان سے سوال کیا کہ کیا آ پ ایک خدا پہ یقین رکھتے ہیں تو اس نوجوان کا جواب تھا نہیں بلکہ میں تو تین سو سے زیادہ خداؤں پہ یقین کرتا ہوں، تو ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ آپ نے یہ کہاں پڑھا تو نوجوان کا جواب تھا مین نے پڑھا نہیں بلکہ یہ اپنے ماں باپ سے اور اپنے معاشرے سے سنا اور اس پر ہی یقین کیا۔

ڈاکٹر ذاکر نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج اگر معاشرہ یا آپ کے والد یہ کہیں کہ 2 + 2 = 5 ہوتا ہے تو کیا وہ مان لے گا، اس نوجوان نے فوراً جواب دیا نہیں کیونکہ یہ کتابی اصول کے خلاف ہے، تو ڈاکٹر صاحب اس ہندو نوجوان کی درستگی کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی ہندو مت کی کتابوں جس میں یاجروید اور دیگر ہندو مذہبی کتابوں کا حوالہ دیا جن میں لکھ ہے خدا ایک ہے، اس کی کوئی مورتی نہیں، اس کی کوئی تصویر نہیں، یہ سن کر ہندو نوجوان کی حیرت دیدنی تھی کہ جس عقیدہ اس کی سوسائٹی یا والدین یا اس کے مذہبی پیشواؤں نے اسے سیکھا یا اس کی اپنی مذہبی کتابیں اس کی بالکل نفی کرتی ہیں؟

ہمارے برصغیر میں جتنے بھی مذاہبِ ہیں شاید ہی ان کے پیر وکار اپنی مذہبی کتابوں سے پڑھ کر اپنے مذہب پہ عمل پیرا ہوں، ہر کسی نے ماں باپ، معاشرہ، مولویوں، بابوں یا اپنے پیشواؤں سے کچھ مذہبی عقائد عبادات سں ن لی اور اسی پہ زندگی گزار دی، معاشرے یا مولوی نے جس بات کو اسلام کہا اسے اسلام مان لیا، جس کو اللّٰہ کے کاموں میں دخل اندازی کہا اس کو دخل اندازی مان لیا بنا یہ سو چے کہ اس برتر و بالا نہ جو کام اپنے ذمے لیے دنیا کی کوئی طاقت اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتی اور جو کام ہمارے ذمے لگائے ان کو انجام دینے کے لئے ہمیں عقل دی جس کو استعمال کرنا اللّٰہ کے کاموں میں دخل اندازی نہیں، جس کو مو لوی یا بابے نے مذہب کی توہین بولا اس شخص پہ چڑھ دوڑے بنا اللّٰہ کی کتاب سے پڑھے کہ یہ توہین ہے بھی یا کہ صرف اس مولوی، بابے، پنڈت یا مذہبی ٹھیکیدار کی کم فہمی۔

اور یوں کتابوں کو چھوڑ کر یہ لوگ خود کو منواتے نظر آتے ہیں۔

موجودہ وبائی صورتحال میں جب ہم خود اللّٰہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے اسلام سے آسان دنیا کا کوئی مذہب نہیں، اللّٰہ اپنی عبادت کے لئے اپنے بندوں کو مشکل یا مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا جان کا خطرہ تو درکنار، اس کی مثال ہمیں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اس طرح ملتی ہے کہ آ پ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے با رش اور سخت سردی میں گھر پر ہی نماز و جمعہ اور دیگر عبادات کا حکم دیا اور باقاعدہ مؤذن کو یہ حکم دیا کہ اذان میں یہ الفاظ شامل کرے ”نماز گھر میں پڑھنا بہتر ہے مسجد میں آنے سے“ ۔

لیکن جب ہم نے پاکستان میں علماء اور دینی با بوں کو دیکھا تو وہ اس خوف ناک صورتحال میں بھی ان کتابوں کی تعلیمات کے 180 ڈگری الٹ نظر آئے اور سوشل میڈیا پر وہ لو گ جنہوں نے والدین سے دین کی چند باتیں سنی اور معاشرے سے دین سیکھا اور ان بابوں کی باتوں کو ہی دین سمجھا وہ بھی میڈیا پر ان علما کی تائید میں 2 + 2 = 5 بولتے نظر آتے ہیں اور اس بات کا عملی ثبوت دیتے نظر آتے ہیں کہ اسلام آسان مذہب نہیں بلکہ اس خطرناک ترین حالات میں بھی چاہے اپکی جان چلی جائے یا دوسرں کی جان کو آپ سے خطرہ ہو آپ کو ہر صورت مسجد آنا ہے اگرچہ کتابی اسلام اس کا تقاضا نہیں کرتا ہمارے مفتی صاحب اور بابوں سے زیادہ علم کتابوں میں نہیں۔

اور اس کی مختلف توجیہات یہ پیش کی کیا کورونا شاپنگ مالز، سپر اسٹورز اور بازاروں میں نہیں جاتا صرف مسجدوں میں آتا ہے؟

یہ باتیں کوئی بھی ذی شعور سنتا ہے تو سوچتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی گھر میں نماز کا حکم دینے کی بجائے یہ فرما سکتے تھے کہ تم سردی اور بارش میں روز مرہ کے باقی کام بھی کرتے ہو، بازار جاتے ہو تجارتی سرگرمیاں جاری رکھتے ہو لہذا مسجد آ نے سے کیا چیز مانے ہے، اور بھیڑ میں حجر اسود کو دور سے ہاتھ کے اشارے سے استلام کرنے کی بجائے ہمت سے کام لینا چاہیے جیسے بازار میں دکم پیل کرسکتے ہو تو یہاں رش کو چیرتے ہوئے بوسہ کیوں نہیں لے سکتے، اور جب اذان ہو بجائے سکون اطمینان سے اور وقار کے ساتھ مسجد کی جانب چلنے کی بجائے بھاگ کر نماز ک لیے آؤ جیسے بازاروں میں بھاگ دوڑ کرتے ہو۔ مگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی اور اللّٰہ کے دین کو اسان اور سلامتی والا بنایا جیسا کہ اللّٰہ نے اپنے حبیب کو حکم دیا۔

تو دین کے شعار و احکامات کو بازاری معاملات سے نتھی کرکے دین کی آسانی کو ختم کرنا دین کی خدمت نہیں بلکہ عین دین دشمنی ہے۔

جب تک ہم کتاب کی طرف رجو ع نہیں کرتے یہ رانگ نمبرز آپ کو 2 + 2 = 5 بتاتے رہیں گے۔

اور اسی طرح اسلام کے نام پر ہم تقسیم ہوتے رہیں گے اور اسلام کے نام پر بلا سوچے سمجھے ہر مختلف سوچ رکھنے والے پہ چڑ ڈوریں گے، وہ پاکستان میں مشعال خان قتل کیس ہو یا انڈیا میں ہندو مسلمان فسادات۔

یہ کتاب ہی ہے جوآپ کو عقل دانش سیکھا تی ہے اور باقی مخلوقات سے اشرف بناتی ہے، اور اسی وجہ سے اللّٰہ عزوجل اپنے سب انبیاء کو کتاب دے کر بھیجا تاکہ لوگ اس کو پڑھیں اور غور کریں۔ تو آگے بڑھیے اور اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجیے وہ آپ کو حالات کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑے گا اور آپ خود یہ بات کہیں گے کہ

مرنے سے پہلے اے انسان کر لے اس پہ غور کتابوں کا خدا اور ہے اور بابوں کا خدا اور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments