صحت کے گمبھیر مسائل اور فیصلہ سازوں کی بے حسی


کہتے ہیں کہ ایک ریاست اپنی عوام کی ماں ہوتی ہے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کی پرورش، تربیت، ان کی دیکھ بھال، صحت و تعلیم اور دیگر ضروریات کا پورا پورا خیال رکھتی ہے اسی طرح ایک ریاست کے فرائض میں بھی یہ شامل ہے کہ وہ اپنی عوام کے لئے ایک ماں کا کردار ادا کرے۔ ان کی بنیادی انسانی ضروریات، مثلاً تعلیم، صحت، روزگار، خوراک، کپڑا، اور دیگر ضروریات کا خیال رکھے۔ ان کے روز مرہ کے مسائل کو حل کراے۔ اگر ریاست اپنی ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی تو اس کو ایک ناکام ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔

ریاست کوئی ایک فرد، گروہ، یا کوئی ادارہ نہیں ہوتی بلکہ سیاست دان، حکمران، مقتدرہ، مقننہ، انتظامیہ، عسکری طاقتیں، اور عوامی ادارے مل کر ایک ریاست کو تشکیل دیتے ہیں۔ لہذا عوام کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا ان اداروں کے فرایض میں شامل ہے۔ لیکن افسوس کہ ریاست میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔

آج کل کے حالات میں جب کرہ ارض کے 200 ممالک کورونا جیسی وبا سے سخت متاثر ہیں۔ لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور نہ جانے کتنی ہلاکتیں انتظار کر رہی ہیں دنیا بھر کے لئے شعبہ صحت انتہائی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ لیکن ملک میں عمومی اور خصوصی دونوں حالات میں علاج معالجے کی ناکافی سہولیات اور صحت کے شعبے کے لئے مختص رقومات اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ ملک میں صحت سے متعلق نہ کبھی کوئی منعظم، مربوط، اور جامع پالیسی تشکیل دی گئی اور نہ اب ہے۔

صحت کا شعبہ حکومتوں اور حکمرانوں کی ترجیحات کی فہرست میں سب سے آخری درجے میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کورونا جیسی وبا، یا دوسری قدرتی آفات کے نازل ہونے کے بعد حکمرانوں کو خیال آتا ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ طبی سہولیات کے فقدان، وسائل کی عدم دستیابی اور پیش بندی کے بغیر قدرتی آفات سے نبردآزما ہونا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہزاروں انسانی جانوں کی ہلاکتوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ آزاد کشمیر کے زلزلے لی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں اور اس سانحہ کے منفی اثرات انسانی زندگی پر ابھی تک باقی ہیں۔ لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

اس وقت ملک میں طبی سہولیات کی حالت نہایت ہی نا گفتہ بہ ہے۔ ملک میں ہسپتالوں کی سخت قلت ہے جو تھوڑے بہت ہیں ان میں ڈاکٹرز، تربیت یافتہ نرسوں، اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف، میڈیکل آلات، مشینوں، لیباریٹریز، اور دواؤں کا فقدان ہے۔ ہسپتالوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ 100 مریضوں کو بہ یک وقت طبی امداد اور علاج مہیا کیا جا سکے۔ وینٹی لیٹر میڈیکل آلات میں ایک انتہائی اہم مشین ہے جو عام حالات میں بھی مریضوں کو مصنوعی تنفس مہیا کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ملک بھر کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کل تعداد 2000 کے قریب تھی جن میں سے نصف ناقابل استعمال تھے۔

اب اس وبائی مرض کے بعد اس مشین کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور کتنی درآمد کی گئی ہیں۔ کتنے ملکوں نے امداد کے طور پر دییے ہیں اس کا کوئی سرکاری بیان یا ریکارڈ نہیں ہے۔ طبی سہولیات کی یہ حالت ہے کہ کورونا جیسی وبا سے نمٹنے کے لئے ڈاکٹرز، نرسز، اور دیگر میڈیکل عملے کو سرجیکل ماسک، دستانے کٹس، اور دیگر حفاظتی سامان تک مہیا نہیں کیا گیا ہے۔ جب ڈاکٹرز نے احتجاج کیا کہ طبی عملہ کورونا کے خلاف اپنی آخری لمٹ میں کام کر رہا ہے ان کو اپنی جان کے تحفظ کے لئے ضروری سامان مہیا کیا جائے۔ لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ فرنٹ لائن ڈاکٹرز جو اس موزی وائرس کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ان کی حفاظت کے بجائے پولیس ان پر ڈنڈے برسا رہی ہے۔

چین سے 6 جہاز کورونا وائرس سے بچاؤ کا حفاظتی سامان لے کر پہنچے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حفاظتی سامان سب سے پہلے ان فرنٹ لائن ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے کو مہیا کیا جاتا تاکہ وہ وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج بہتر طریقے سے کر سکیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ حفاظتی سامان جس ادارے کی زیر نگرانی وصول کیا گیا یہ تو سب کو معلوم ہے۔ لیکن کن کن صوبوں کو کتنی تعداد میں تقسیمِ کیا گیا۔ کتنے ہسپتالوں میں پہہنچا۔ اور کتنے ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف اس حفاظتی سامان سے مستفیز ہوئے اس کے بارے میں کوئی تصدیق شدہ بیان ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔

یہ ملکی روایت ہے کہ بیرونی ممالک سے آئی ہوئی میڈیکل ساز وسامان کی امداد چاہے وہ زلزلہ زدگان کے لئے ہو یا سیلاب زدگان کے لئے مستحقین تک کبھی بھی نہیں پہنچ پاتی۔ کب اور کہاں تقسیمِ ہوتی ہے اس کے بارے میں عوام ہمیشہ اندھیرے میں رہتے ہیں۔ جب اس آفت کی شدت کم ہوتی ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ یہی بیرونی امدادی سامان بازاروں میں فروخت ہوتا نظر آتا ہے۔ دوست ممالک کی طرف سے بھیجی گئی طبی امداد کی اس خرد برد کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آئندہ کسی قدرتی آفت کی امداد کی اپیل کے باوجود کوئی ملک آپ کی درخواست پر کان نہیں دھرتا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم ایک بدعنوان قوم ہیں ہم غریب عوام کے لئے آئیہوئی بیرونی امداد بھی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اور حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ پاکستان اپنے شعبہ صحت پر اپنی جی ڈی پی اور سالانہ بجٹ میں کتنی رقم مختص کرتا ہے اور اس کا موازنہ جنوبی ایشیا اور افریقہ کے ان غریب، پس ماندہ، اور ابھرتی ہوئی معیشتوں سے کرتے ہیں جن کے حالات پاکستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

اکنامکس سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان نے سال 2019۔ 20 میں اپنی ہیلتھ سروسز پر جی ڈی پی کا ایک فی صد سے بھی کم خرچ کیا تھا۔ اور رواں سال کے بجٹ میں صحت کے شعبے کے لئے مختص کردہ رقم 13.376 ارب روپے تھی۔ 22 کروڑ آبادی والے ملک میں عوام کی طبی سہولیات کے لئے وفاقی حکومت کا حصہ صرف 13 ارب روپے تھا۔

اس مونگ پھلی کے دانے کے برابر مختص کردہ رقم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت عوام کے علاج معالجے کے لئے کس قدر سنجیدہ ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک انٹرنیشنل سروے کے مطابق 2017 وہ واحد سال تھا جب ملک میں صحت کا بجٹ اس کی جی ڈی پی کا 2.90 فیصد تھا۔ اس کے بعد سے آنے والی حکومت نے اسے ایک فی صد سے بھی کم تک پہنچا دیا۔ یہ تھی وہ تبدیلی جس کے لئے عوام بے چین تھے۔

ڈبلو ایچ او کے اعداد وشمار کے مطابق 2017 میں مندرجہ ذیل ممالک کے شعبہ صحت کے لئے مختص رقومات ان کی جی ڈی پی کے مطابق کتنی تھیں آیئے دیکھتے ہیں۔

افغانستان۔ 11.78 فیصد ایران 8.66 فی صد
عراق۔ 4.17 %۔ نیپال 5.55 فیصد
بھارت۔ 53۔ 3 فی صد۔ سری لنکا 3.81
مالدیپ 9.03 فیصد بھوٹان 3.19 فیصد
بنگلہ دیش 2.27 فی صد
افریقی غریب ترین ممالک مثلاً ایتھوپیا، سوڈان، یوگنڈا کے اعداد وشمار بالترتیب کچھ اس طرح سے ہیں
3.50 فیصد، 6.34 فی صد، 6.19 فیصد جو ہمارے ملک سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
2017 کے بعد سے ان ممالک جی ڈی پی فی صد اعداد وشمار میں یقیناً اضافہ ہوا ہوگا کمی نہیں۔

ترقی یافتہ مغربی ممالک کا تو ذکر ہی کیا لیکن قارئین کو یہاں یہ بتلاتے چلیں کہ امریکہ اپنی عوام کی صحت پر اپنی جی ڈی پی کا 16.9 فی صد خرچ کرتا ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بالترتیب جرمنی، فرانس، کینیڈا، اور برطانیہ کا نمبر آتا ہے جو سب 10 فی صد سے اوپر ہیں۔

اگر ہمارے حکمرانوں کو اپنی عوام کی بھلائی، بہتری، اور صحت کا خیال رکھنا ہے تو اس سے پیشتر کہ کورونا وائرس کی وبا کا دوسرا یا تیسرا حملہ ہو جو ماہرین کے نزدیک غیر متوقع نہیں ہے پیش بندی کر لینی چاہیے۔ ہمیں غریب عوام کی بھلائی کی خاطر اپنے صحت کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اس کو اپنی جی ڈی پی کے پانچ فی صد کے برابر لانا ہوگا جو ہمارے پڑوسی ممالک کے آس پاس ہے۔ وفاق کو اپنے حصے کے صحت کے بجٹ میں کم از پانچ گنا اضافہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں تبدیلی کرنی ہو گی۔ عوام کی صحت و تعلیم کو ترجیحات کی فہرست میں اولین جگہ دینی ہو گی۔

ہمیں اپنے غیر پیداواری اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ وہ اداراے اور صنعتیں جن سے عوام کو براہ راست کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ان کے اخراجات میں کمی کرنی ہوگی۔ ملک کو ایک سیکورٹی اسٹیٹ کے بجائے ایک حقیقی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔ یہی ملک کے 22 کروڑ عوام کے مسائل کا حل نظر آتا ہے جن میں سے 40 فی صد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments