وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا


بے شک، زلزلہ ہو، آندھی طوفان ہو، سیلاب ہو، کوئی پھوٹ پڑنے والی وبا ہو یا اللہ کا نازل ہونے والا عذاب، وہ جب جب بھی برپا ہوتا ہے نہ کسی بدکار کو دیکھتا ہے اور نہ ہی کسی نیکوکار کو خاطر میں لاتا۔ اس کی زد میں کالا ہو یا گورا، امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر، اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور ملک و قوم سے ہو، وہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی ہی آفتوں میں کورونا کا شمار بھی ہوتا ہے جس نے بیک وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی بھی فرد انفرادی یا اجتماعی طور پر بد احتیاطی کرے گا، وہ اس وبا کی لپیٹ میں آ جائے گا۔

اب تک آنے والی متعدی بیماریوں میں کورونا ایک ایسی وبا ہے جو زمین پر اس سے قبل شاید ہی کبھی پھوٹی ہو۔ زمین پر برپا ہونے والی کئی وبائیں بے شک نہایت خوفناک اور تباہی و بربادی کا سبب بنتی رہی ہیں اور برپا ہونے کے بعد بستیاں کی بستیاں برباد کرتی رہی ہیں لیکن جس انداز میں یہ وبا پوری دنیا میں بیک وقت تباہی و بربادی کا سبب بنی ہوئی ہے اس کی مثال انسانی تاریخ میں شاید ہی کہیں موجود ہو۔ اس کی خطرناکیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ جس کو بھی لگ جائے، دوسرے انسان میں منتقل ضرور ہوتی ہے حفاظتی لباسوں کے باوجود بھی معالجوں اور اپنے نگرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس کی وجہ سے ہسپتال کا وہ عملہ جو ایسے مریضوں کی دیکھ بھال پر مامور ہے وہ بھی ہر وقت نہ صرف خطرے میں رہتا ہے بلکہ مسلسل ذہنی اذیت کا شکار رہنے کی وجہ سے کئی نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا بھی ہوتا جا رہا ہے۔

ایک ایسی بیماری جس کا کوئی علاج اب تک دنیا ڈھونڈنے میں ناکام ہے اس سے بچ رہنے کا دنیا کے پاس اب تک جو سب سے محفوظ طریقہ سامنے آیا ہے وہ گوشہ نشینی ہے لیکن یہ گوشہ نشینی بھی ایک حد تک انسان کو تحفظ دے سکتی ہے کیونکہ بنا کھائے پئے ایک انسان بہت عرصے زندہ کیسے رہ سکتا ہے۔

وہ افراد یا خاندان جن کو اللہ نے بہت وسائل سے نواز رکھا ہے وہ تو ممکن ہے کہ ایک طویل عرصے تک اپنی زندگی کے اسباب مہیا کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے ایسے افراد یا خاندان دنیا کی کل آبادی کا دو یا تین فیصد سے زیادہ نہیں۔ باقی آبادی کا 97 یا 98 فیصد حصہ بہر کیف بہت عرصے اپنے آپ کو قیدِ تنہائی میں نہیں رکھ سکتا اور کچھ جلد اور کچھ دیر میں، بھوک کے ہاتھوں ہلاکت کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔

یہ قول بہت ہی مشہور ہے کہ ”انسان ایک معاشرتی حیوان ہے“ اور یہی معاشرتی حیوانیت اس کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔ ہر انسان ہر دوسرے انسان کی ضرورت ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تمام ”سہاروں“ کے بغیر اپنی زندگی گزار سکے اس لئے اسے اپنی اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد اور اعانت درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے بازار، کارخانے، ملیں اور ہر قسم کے کاروبارِ زندگی کو تادیر بند نہیں رکھا جاسکتا۔ ایک جانب کاروبارِ زندگی کو جاری رکھے بغیر زندگی کو جاری رکھنا مشکل تر ہے تو دوسری جانب تمام کاروبار زندگی کو اگر رواں دواں کر دیا جائے تو یہ بھی آگ کے الاؤ میں چھلانگ لگا دینے کے مترادف ہے۔ یہ ہے وہ مشکل جس کی وجہ سے دنیا کے انسانوں کو یہ بات سمجھ میں آ کر نہیں دے رہی کہ وہ کریں تو کیا کریں۔

کتنے دکھ درد کی بات ہے کہ اس وبا کے ہاتھوں بے بسی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے سارے معبدوں کے دروازوں میں تالے پڑ گئے ہیں۔ ساری عبادت گاہیں انسانوں سے خالی ہو گئی ہیں۔ وہ سارے مقامات جہاں انسان اپنی خطاؤں پر آنسو بہا کر اپنے دل کو سکون دے لیا کرتا تھا اس کے در و دیوار تک کو بھی نہیں چھو سکتا۔ وہ مساجد جہاں اللہ کے حضور ناک و ماتھا ٹیک کر اُس ایک کے عظیم ہونے اور اپنے عاجز ہونے کا اقرار کیا جاتا تھا، وہ بند کر دی گئی ہیں اور ہر ستم سے بڑھ کر ستم یہ ہے کہ عبادت کا وہ مرکز اور محبت کی وہ درگاہ جہاں دنیا بھر کے مسلمان جمع ہو کر اس ایک اللہ کو پکارا کرتے تھے اور اُس ہستی کے روضے کی جالیوں کو چوم کر اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے، ان کے دروازے بھی بند ہو گئے۔

جب ایسے ایسے مقاماتِ مقدسہ سر بمہر کردیئے گئے ہوں تو پھر دنیا بھر کی عام مساجد میں افراد کے اجتماع پر روک ٹوک کوئی ایسی بات نہیں جس پر کوئی بہت ہی دل برداشتہ ہوا جائے۔ جو تنقید بھی اس قسم کے اجتماعات پر سامنے آ رہی ہے وہ بے جا تو نہیں لیکن دکھ اگر ہے تو اس بات پر ہے کہ تنقید کرنے والوں کا لب و لہجہ اور انداز گفتگو نہایت نا مناسب اور گستاخانہ ہے۔ تنقید کرنے والے ایسے اجتماعات کو تنقید کا نشانہ تو بنا رہے ہیں لیکن اس دکھ، درد اور اذیت کا اظہار نہیں کر رہے ہیں کہ مساجد تو مساجد، حرمین شریفین تک کے دروازوں میں تالے پڑ چکے ہیں۔

کیا ہم اللہ کی نظروں میں اتنے مردود ہو گئے ہیں کہ اس نے دنیا بھر میں اپنے تمام گھروں کے دروازے ہم پر بند کر دیے ہیں۔ کاش تنقید کرنے والے تیکھے انداز میں موشگافیاں کرنے کی بجائے نہ رکنے والے آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اللہ کا واسطہ دے کر مساجد اور عبادت گاہوں میں جانے سے روک رہے ہوتے تو اس بات کا احساس ہوتا کہ بے شک وہ سب مصلحت کے تحت ایسا کرنے پر اعتراض کر رہے ہیں لیکن انھیں اس بات کا اتنا دکھ ہے کہ ان کے دل و جگر پھٹے جا رہے ہیں۔

وہ تمام حضرات جو مساجد ہی کی جانب جانے پر معترض ہیں، کاش بازاروں کی جانب بھی نگاہیں کر لیں تو انھیں مساجد میں جانے پر کبھی اعتراض نہ ہو۔ جب جب بھی انسانوں کو اپنی ضرورتوں کی خرید و فروخت کی اجازت ملے گی لوگ ہر احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر ”احتیاج“ کو لازماً مقدم جانیں گے اور وہ سارے ضروری اقدامات جن کو اختیار کیا جانا ضروری ہے، ان کی پرواہ کیے بغیر اپنی زندگی کی بقا کو اولیت دینے پر ترجیح دیں گے۔ اگر زندگی ہر شے پر مقدم ہے تو پھر میں مساجد میں جانے پر سخت تنقید کرنے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا زندگی، زندگی اور موت دینے والے سے بھی عظیم تر ہے؟

ایسے سارے افراد جو نہایت تلخ انداز میں بازروں میں رش کی بجائے مسجد میں اجتماع پر معترض ہیں، ان کے لئے اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments