’نمستے ٹرمپ‘ کے بعد ہندوستان


24 فروری 0202 کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورے پر آئے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی مہمان نوازی بلکہ یوں کہاجائے کہ ٹرمپ کے احسانات کا بدلہ چکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ امریکہ میں ’ہاؤ ڈی مودی‘ کے بعد ہندوستان کے شہر احمدآباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ کا انعقاد ہواتھا، یہ الگ بات کہ ’ہاؤ ڈی مودی‘ پروگرام کے برگزارکنندگان امریکی صدر نہیں تھے اور نہ سرکار سے وابستہ افراد کمیٹی میں شامل تھے مگر ’نمستے ٹرمپ‘ پوری طرح سرکاری پروگرام تھا جس کے محرک وزیر اعظم نریندر مودی تھے۔

مودی نے ٹرمپ کو یہ بارور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ مشرق وسطیٰ میں ان سے اچھا دوست کوئی نہیں ہے۔ ٹرمپ کے انداز اور طریقہ ¿ ملاقات سے بھی ہمیشہ یہی جھلکتا رہا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بیحد پسند کرتے ہیں۔ اس پسندیدگی کے مختلف اسباب و علل بیان کیے جاسکتے ہیں مگر ایک بات جو دونوں میں مشترک ہے وہ یہ کہ دونو ں گفتار کے غازی اور عوام کو سبز باغ دکھانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ میڈیا میں ٹرمپ کا دورہ ¿ ہندوستان ایک زمانے تک موضوع بحث رہتا مگر اسی دوران دہلی میں فرقہ وارانہ فسادشروع ہوگیا۔

دہلی جل رہی تھی اوروزیر اعظم مودی امریکی صدر کی خوشنودی کے حصول میں جی جان سے لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے ٹرمپ کے ہندوستان سے جانے تک دہلی فساد پر کوئی اہم موقف اختیار نہیں کیا۔ حکومت نے ٹرمپ کے اس دورے کی کامیابی کے لئے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے ملنے والی ٹیکس کی رقم کو پانی کی طرح بہایا تھا مگر دہلی فساد نے ان کی تمام تر محنتوں اور کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ٹرمپ واپس امریکہ لوٹ گئے اور دہلی فرقہ پرستی کے زخموں کی ٹیسوں سے سسکتی رہی۔ فریاد کرتی رہی۔ مگر اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ جب تک دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال اور وزیر اعظم مودی خرا ب خرگوش سے بیدار ہوئے اس وقت تک دہلی جل بجھ چکی تھی۔

قابل غور یہ ہے کہ جس وقت وزیر اعظم مودی گجرات کے شہر احمدآباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ پروگرام کے مزے لوٹ رہے تھے، اس وقت ہمارے پڑوسی ملک چین میں کورونا وائرس نے قہر برپایا ہوا تھا۔ حکومت اس مہلک وائرس کے خطروں اور نقصانات سے بے خبر تھی۔ انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ چین کی سرحدوں سے نکل کر یہ جان لیوا وائرس ہندوستان کی سرحدو ں میں بھی داخل ہوسکتا ہے۔ جبکہ ’نمستے ٹرمپ‘ کے انعقاد سے قبل03 جنوری کوہندوستان میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آچکا تھا۔

اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو وہ ماہ فروری میں ہی ایسے موثر اقدامات کرسکتی تھی کہ جس سے کورونا وائرس ہندوستان کی مختلف ریاستوں تک نہیں پہونچ پا تا۔ مگر سرکار کی پوری مشینری ’نمستے ٹرمپ‘ کے انعقاد میں مصروف تھی اور کسی کو اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں تھی کہ کورونا وائرس ہندوستان کی سرحدوں میں داخل ہوچکاہے۔ ٹرمپ کی واپسی کے بعد بھی حکومت سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ اگر لاک ڈاؤن ہی اس مسئلے کا واحد حل تھا تو ٹرمپ کی واپسی کے فوراً بعد یہ قدم اٹھالیا جاتا۔

یعنی ان ریاستوں میں لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اختیار کی جاتی جہاں کورونا اپنے پاؤں پسار رہا تھا۔ مگر اس وقت وزیر داخلہ اور وزیر اعظم مدھیہ پردیش میں کانگریس کی سرکار گرانے کے منصوبے کو عملی شکل دینے میں مصروف تھے۔ جب تک مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی سرکار بنی تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ مارچ کے آخری ہفتے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا جس کے بعد ملک کی اکثر ریاستوں میں کورونا وائرس کسی نا کسی ذریعہ سے داخل ہوچکا تھا۔ حکومت کی ناتجربہ کاری اور غیر سنجیدہ پالیسی نے اس وائرس کو ملک میں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا، مگر ہمارا قومی میڈیا اورسیاسی و سماجی تجزیہ نگارحکومت کی اس فاش غلطی کی پردہ پوشی میں مصروف رہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اس وقت وزیر اعظم مودی، بی جے پی سرکار اور تمام ہندوستانیوں کی خوش فہمیوں اور توقعات پر پانی پھیردیا جب انہوں نے کورونا کے علاج کے لئے ملیریا کی دوا کی دھمکی آمیز لہجے میں مانگ کی۔ ان کا یہ تحکمانہ اور دھمکانے والا لہجہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کو بیان کررہا تھا۔ امریکہ کے لئے مشہور ہے کہ اس کی دوستی اچھی ہے اور نا دشمنی! امریکہ نے ہمیشہ اپنے پالتو افراد اور دوستوں کو ہی سانپ بن کر ڈساہے۔

اس کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ صدام حسین سے لے کر اسامہ بن لادین تک تمام افراد امریکہ کے منظور نظر تھے مگر امریکہ ہی ان کی تباہی و نابودی کا باعث بنا۔ ہندوستان کو بھی ٹرمپ کے جارحانہ انداز کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ ہندوستان نے امریکہ و اسرائل نوازی میں اپنے جن پرانے دوستوں سے نظریں پھیریں ہیں وہ مناسب نہیں ہے۔ امریکہ اپنی داداگیری اور حاکمیت کے لئے دنیا بھر میں بدنام ہے۔ مگر اس کی فوجی داداگیری کو ایران نے ختم کردیاہے اور معیشت کی پول امریکہ میں کورونا وائرس کے داخل ہوتے ہی کھل گئی۔ اس لئے ہندوستان کو اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنا ہوگی تاکہ امریکہ کی دوستی ہمارے لئے وبال جان نہ بن جائے۔

جس وقت ملک میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا اس کے فوراً بعد ملک کے تمام ائیرپورٹس پر بیرون ملک سے آنے والوں کی اسکریننگ کی جاتی۔ ائیرپورٹس کے آس پاس کورنٹائن سینٹر قائم کیے جاتے، جہاں کورونا کے مشتبہ افراد کو رکھا جاتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا وائرس بیرون ملک سے آنے والے افرا د کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوا۔ یہ لوگ غیر ملکی سیاح بھی ہوسکتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے اپنے وطن کو لوٹنے والے ہندوستانی بھی۔

مگر حکومت نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے کورونا کو ہندوستان میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا۔ حکومت اپنی ناکامیوں اور لاپرواہی کی پردہ پوشی کے لئے ایک بلی کا بکرا تلاش کررہی تھی۔ یہ ’بلی کا بکرا‘ اچانک عالم وجود میں نہیں آیا بلکہ حکومت اور ملک کی تمام تر خفیہ ایجنسیاں اس سے واقف تھیں۔ سرکار کو ’تبلیغی جماعت‘ کی شکل میں وہ بلی کا بکرا مل گیا جس کی اسے ایسے حالات میں سخت ضرورت تھی۔ ہمارا قومی میڈیا جس کی اکثریت پوری طرح فاشسٹ طاقتوں کی آلہ ¿ کار بن چکی ہے، سرکار کی اس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہوگیا۔

ملک کے عوام کو یہ بارور کرادیا گیاکہ سرکار کورونا وائرس سے نمٹنے میں کامیاب ہوچکی تھی مگر تبلیغی جماعت کے افراد نے پورے ملک میں اس وائرس کو پھیلادیا جو اب ہمارے کنٹرول سے باہر ہوچکاہے۔ ہرطرف تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کوسا جانے لگا اور لوگ یہ بات قطعی بھول گئے کہ کیا حکومت تبلیغی جماعت کی فعالیت اور اجتماعات سے بے خبر تھی؟ قومی میڈیا نے تبلیغی جماعت کو ’کورنا بم‘ کا نام دے کر پورے ملک میں بدنام کردیا اور اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی یہ سمجھ بیٹھے کہ ہندوستان میں اس وائرس کو پھیلانے میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیاہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تبلیغی جماعت کے افراد بھی لاپرواہی کا شکار ہوئے مگر ان کی لاپرواہی پر انہیں کوسنے والے سرکار کی لاپرواہی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیوں کررہے تھے؟

’ کورونا بم‘ کے نام پر تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والا قومی میڈیا اور ہماری سرکار یہ بھول گئی کہ گجرات کے جس شہر احمدآباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ پروگرام منعقد ہوا تھا، وہاں کرونا نے قہر برپایا ہواہے۔ کیا احمدآباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ میں ہوئی بداحتیاطی کی بنیاد پر کورونا کو اس قدر فروغ حاصل ہوا؟ یہ بھی تحقیق طلب ہے۔ گجرات کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ کورونا کے مریض احمد آباد میں ہیں اورریاست گجرات میں سب سے زیادہ اموات احمدآباد میں ہی رونما ہوئی ہیں۔

مگر ہمارا قومی میڈیا اور سرکاری ترجمان کبھی اس موضوع پر بات نہیں کریں گے۔ تبلیغی جماعت کی لاپرواہیوں پر انہیں ’کورونا بم‘ کے نام سے پکارنے والے ’نمستے ٹرمپ‘ کے بعد احمدآباد میں کورونا کے بڑھتے ہوئے اثر کو کس نام سے یاد کریں گے؟ اس گندی اور فرقہ پرست سیاست سے باز رہنے میں ہی ملک کی بھلائی ہے، یہ بات جتنی جلدی سرکار اور میڈیا کو سمجھ میں آجائے اتنا ہی ہمارے ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments