جعلی مولویوں سے بچیں اور ایمان بچائیں



مولوی کیا ہے؟ کیا ہر وہ شخص جو خود کو مولوی کہلواتا ہے مولوی ہے؟ کیا مولوی جیسا عظیم لفظ یوں ہی ہر ایک کے نام کے ساتھ لگایا جاسکتا ہے۔ کیا عوامل ہیں جو ایک شخص کو مولوی کا درجہ دیتے ہیں۔ اور کیا ان عوامل سے گزرے بغیر کوئی شخص مولوی بن سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب جاننا ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔

جب بھی ہم نے کسی شے کو جاننا ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہم اس کی تعریف جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تعریف وہ چند الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے جو کسی شے کی تمام خصوصیات کو بیان کرتا ہے۔  اردو زبان میں مولوی لفظ اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دین کا خاصہ علم رکھنے والا، مسائل دین سے واقف، پڑھا لکھا آدمی، عالم دین، فقیہہ یا فاضل ہیں۔ اب اس تعریف کی رو سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہر وہ شخص جو خود کو مولوی کہلواتا ہے واقعتاً مولوی ہے؟ یقیناً نہیں۔

تو سب سے پہلے ہمیں اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خود کو کہلوانے سے کوئی مولوی نہیں بنتا۔ بلکہ باقی علوم کی طرح دین کے علم کو بھی مستند درسگاہوں اور جامعات سے سیکھنے کی حاجت ہوتی ہے اور اس علم کو کامیابی سے سیکھنے والے کو اُسی جامعہ کی طرف سے ایک سند جاری ہوتی ہے، جو کہ اس بات کی یقین دہانی ہے کہ یہ شخص درس و تدریس اور دینی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جس طرح نیم حکیم خطرہ جان ہے بالکل ویسے ہی نیم ملا خطرہ ایمان ہے۔ ہر وہ شخص جو دین کو سمجھنے سے قاصر ہے اور جس کے پاس دین کا علم نہ ہونے کے برابر ہے کیا اس کے قول کو یا اس کی کسی بات کو دین سے جوڑا جا سکتا ہے؟ کیا دین جیسا معاملہ جس پر ہماری دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کا انحصار ہے اس کو یوں چھوڑ دینا چاہیے کہ ہر اناڑی شخص اپنے اپنے تجربے آزماتا رہے۔ اور لوگوں کے ذہنوں اور جذبات سے کھیل کر اپنی چاندی کرتا رہے۔ حکومت پاکستان کی اس نازک معاملے میں کیا ترجیحات ہیں؟

شہر کی تمام مساجد اور تمام گاؤں اور قصبوں کی مساجد میں تعینات وہ تمام شخص جو خود کو مولوی کہلاتے ہیں کیا اس قابل ہیں کہ ہمارے بچوں کی ذہن سازی اور کردار سازی کر سکیں؟ کیا دین جو کہ ایک بچے کے پیدا ہونے کے بعد اس کی کان میں اذان کی آواز سے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور مرنے کے بعد اس کا جنازہ پڑھاتے وقت بھی دین کی ہی ضرورت پڑتی ہے ہے تو کیا اس انتہائی اہم معاملے میں غفلت کی ذرہ برابر بھی گنجائش ہے کہ اس معاملے کو یوں بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے چھوڑدیا جائے۔

مسجدوں میں مولویوں کو تعینات کرتے وقت ان کی اسناد کو دیکھنا کیا اس مسجد کے متولیوں کی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہے؟ حکومتِ وقت اس معاملے سے کیوں نگاہیں چرا رہی ہے۔

جب ہم نے کسی دوسری زبان کا علم حاصل کرنا ہوتا ہے تو اس کے پروفیسر کے پاس جا کر علم حاصل کرتے ہیں یعنی ہم نے دین کو اتنی عارضی شے سمجھ لیا ہے کہ ہم اس کو سیکھنے کے لئے ایک جاہل کو اپنا عالم سمجھ لیتے ہیں۔ ملکِ پاکستان میں بڑھتا ہوا یہ مسئلہ دن بہ دن گمبھیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آئے روز پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کفر کے فتوے لگا رہا ہے اور لوگوں میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو مذہبی سربراہان کے ساتھ مل کر ایسی جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس سے تمام مساجد اور مدارس میں مستند علماء کرام کی تعیناتی کی جاسکی۔

جعلی مولویوں اور پیروں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی گھناؤنی حرکات میں ملوث نہ ہو۔ تمام مساجد میں بھی علماء کرام کو سرکاری طور پر تعینات کیا جائے اور حکومت کے پاس ان کی تعلیم کا مکمل ریکارڈ ہو جس طرح باقی محکموں میں ہوتا ہے۔ تمام نفرت انگیز بیانات پر پابندی لگائی جائے اور تمام مکتبہ فکر کے علماء کرام کو اس آیت پر ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو“ پر اکٹھا کیا جائے۔

عمران خان صاحب جو کہ دین کے معاملے کو کافی سنجیدگی سے لیتے ہیں ان کو اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ یہ کام کر دیں تواسلامی جمہوریہ پاکستان کو بہت بڑی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ اور صرف حکومت کا ہی نہیں ہم سب کا اولین فرض ہے کہ ہم دین کے معاملے میں غفلت نہ برتیں اور احتیاط سے کام لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments