معرکہ سحر و افطار


رمضان المبارک ہم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے، کم ہے۔ لیکن ہم مسلمان عجیب مخلوق ہیں، ہم نے رمضان کی سحری، افطاری کو صرف پیٹ بھرنے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ روزانہ سحری و افطاری کے وقت دسترخوان پر نئے ریکارڈز بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ بلکہ اکثر ریکارڈز خودبنانے والوں کے ہاتھوں ہی ٹوٹتے ہیں۔

روزہ رکھ کر سارادن اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا جاتا ہے کہ یہ ظلم تو نے کیوں کیا، ہر طرف ہاہاکار مچی ہوتی اور ایک ایک منٹ گن کر گزارا جاتا ہے ۔ افطاری کے وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی دسترخوان بچھا کر اشیائے خوردونوش اپنے سامنے ڈھیر کرکے ہر چیز کو بلی کی طرح للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور آخرکار وہ گھڑی آن پہنچتی ہے جب اذان کی آواز آتی ہے اور پھر گھمسان کا رَن پڑتا ہے۔ اس کے بعد والی داستان ناقابلِ بیاں ہے۔

ہمارے قریبی دوست مدو جزر خیرآبادی ایک عظیم روزہ خور ہیں۔ پورے محلے میں آپ کی روزہ خوری مشہور ہے، اس کے باوجود بھی افطاری کی کم وبیش ہردعوت میں آپ کو خشوع و خضوع سے شرکت کرتے ہوئے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ افطاری ہویا قل خوانی، آپ کی موجودگی لازم ہے اور اس سلسلے میں آپ اس قدر مستقل مزاج ہیں کہ ماہِ رمضان شروع ہوتے ہی افطاری کی دعوتوں والی تاریخوں میں کیلنڈر پر بڑے بڑے دائرے لگائے ہوتے ہیں کہ کہیں شرکت سے محروم رہ کر ”ثواب“ سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ قل خوانی میں شرکت کا بھی یہی عالم ہے، ایک دفعہ ہمارے مشترکہ دوست کے ساتھ ایک قل خوانی پر گئے اور کھانے کے لیے بیٹھے تو کشتوں کے پشتے لگادیے۔ دوست نے انہیں گُھرکا کہ کچھ لحاظ کریں، مرگ پر آئے ہیں آپ، کسی شادی میں نہیں!

پہلے تو موصوف نے تسلی سے بوٹی دانتوں تلے شہید کی، آرام سے اس کا گودا نکال کر کھایا، پھردوست سے گویا ہوئے،

” دیکھو میاں، ہمارا ایمان ہے کہ قل خوانی کا مقصد مرحوم کی روح کو ایصالِ ثواب پہنچانا ہوتاہے، اس لیے ہم اتنا کھاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ثواب پہنچے“ ۔ دوست نے یہ سن کر ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھری اور مدوجزر خیرآبادی صاحب کو زبردستی دسترخوان سے اٹھا کر واپسی کی راہ لی۔ ایک دن کیاواقعہ ہوا کہ جناب کے دوسرے نمبر والے بیٹے نے آپ کی روزہ خوری سے تنگ آکر گردن پر گوڈا رکھ کر روزہ رکھوالیا۔ بس جی پھر کیاتھا، تمام گھر والوں کی شامت آگئی۔ جناب نے فرداً فرداً سب کو صلواتیں سنائیں اور سارا دن پیٹ پر برف باندھ کر گزارا۔ خیر جیسے تیسے کرکے وہ روزہ افطار کرکے سب نے اجتماعی توبہ کی اور آئندہ ایسی غلطی نہ دہرانے کا عہدکیا۔

ہمارے معاشرے میں ایک غلط روایت جڑ پکڑ چکی ہے کہ گرمی کا بہانہ بنا کر نوجوان نسل روزے نہیں رکھتی۔ جبکہ معمر افراد اپنے بڑھاپے کے باوجود بھی روزے رکھتے ہیں اور تمام عبادات میں بقدرِ استطاعت شریک ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل کے اس رویے کے پیچھے گھر والوں کا اہم کردار ہوتا ہے کہ وہ بھی بچوں کو پھول کلی کی مانند سمجھتے ہیں اور روزہ نہ رکھنے پر کوئی سرزنش نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عادت فطرت بن جاتی ہے اور فطرت کبھی نہیں بدلتی۔

اسی طرح ایک میراثی رمضان شروع ہوتے ہی جوشِ ایمانی سے مغلوب ہوکر روزہ رکھ بیٹھا۔ دوپہر تک اس نے جیسے تیسے وقت گزارا مگر دوپہر کی نماز پڑھنے تک اسے چھٹی کا دودھ یاد آگیا تھا۔ بعد از نماز امام صاحب نے بتایا کہ روزہ رکھ کر جو بھی دعا کی جائے، وہ قبول ہوتی ہے۔ میراثی کی تو جناب دلی مراد برآئی، فوراً دعاکے لیے ہاتھ اٹھا دیے، ”یا اللہ! کل عید ہوجائے“ ۔

پچھلے سال کا رمضان بسلسلہ امتحانات یونیورسٹی (یو ای ٹی لاہور) میں ہی گزارنے کا اتفاق ہوا تو بہت سے نئے تجربات سامنے آئے۔ جیسے پہلی بار ہم نے افطاری کے وقت فروٹ چاٹ میں خربوزے دیکھے، سحری میں گریس والے پراٹھے کھائے اور اپنے ثقافتی جذبات کی کھلے عام توہین برداشت کی۔ سحری زیادہ تر ”بھولا کینٹین (یو ای ٹی کا مشہور ڈھابہ)“ پر ہی ہوتی تھی۔ پہلے روزے میں سحری کرتے ہوئے ہم نے دہی منگوایا تو ایک سفید رنگ کا سیال سا ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔

خیر ہم نے وہ کھایاکم اور پیا زیادہ۔ کھانے کے بعد لسی منگوائی تو کم و بیش پہلے لائے جانے والے دہی کی طرح کا مشروب گلاس میں ڈال کر ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہماری حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ بعد میں ہم نے خفیہ ذرائع سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کینٹین والے سحری کے وقت ایک بڑے سے جہازی سائز پتیلے میں سفید رنگ کا دہی اور لسی نما مشروب سا بنا لیتے ہیں۔ اگر کسی نے دہی مانگا تو وہی مشروب پلیٹ میں ڈال کر دے دیا اور اگر کسی نے لسی مانگی تو وہی چیز گلاس میں ڈال کر دے دی۔ اس جانکاری کے بعد ہم کینٹین والوں کی معرفت کے قائل ہوگئے۔ کیونکہ یہ معرفت چیز ہی ایسی ہے کہ کسی کی معرفت کے بنا حاصل ہو بھی نہیں سکتی۔

ارے کیا ہوا، بوریت ہوگئی؟
تو ابھی ختم کیے دیتے ہیں، بس چلتے چلتے کچھ گزارشات سنتے جائیں :

1) بوقتِ افطاری، دسترخوان پر تحمل سے بیٹھیں اور اپنے حصے پر قناعت اختیار کریں۔ اپنا حصہ لے کر بھی دوسروں پر نظر مت رکھیں۔

2) اتنا کھائیں جتنا ہضم کرسکیں۔ ورنہ بھینس اور آپ میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جائے گا۔ اسے اپھارہ ہوتا اور آپ کو بد ہضمی، وجوہات ایک ہی ہیں۔

3) سحری میں پانی کثیر مقدار میں پینے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ دن بھر آپ کے پیٹ میں جمع رہے گا۔ یہ خصوصیت صرف اونٹ کو حاصل ہے تو خدارا اپنے پیٹ کو تربیلا ڈیم نہ بنائیں۔

4) اپنی خوشیوں میں غریبوں کو بھی شامل کریں اور بانٹنا سیکھیں، چھیننا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments