آفات، سائنس اور مذہب


قدرتی آفات کی مذ ہبی تشریح ایک پرانا نظریہ ہے جو بار ہا سامنے آتا رہتا ہے۔ کم و بیش تمام مذاہب کے پیروکار آفات کو آسمانی قرار دیتے آئے ہیں اور ان سے چھٹکار ا پانے کے لیے بھی ”اوپر“ سے مدد طلب کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اب جبکہ دنیا کرونا کی آفت میں مبتلا ہے کچھ مذہبی رہنما اس کی وجہ خدا کی ناراضی قرار دے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی یہی ہوتا آیا ہے۔ مثال کے طور پر چند سال قبل ایک راسخ العقیدہ برطانوی رکنِ پارلیمنٹ کو اپنی ممبر شپ سے اس وقت ہاتھ دھونے پڑ گئے جب اس نے برطانیہ میں آنے والے سیلاب کو ہم جنس پرستی کا نتیجہ قرار دیا۔ حال ہی میں ایک اسرائیلی مذہبی پیشوا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب اس نے کرونا کو لواطت کی سزا قرار دیا۔ آج کل پاکستان کے کچھ حلقے مولانا طارق جمیل کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کہ انھوں نے کرونا کو بے حیائی اور بے ایمانی کی وجہ قرار دیا۔

موجودہ دور میں سائنس او ر ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی معاشرے میں بے پنا ہ مادی ترقی دیکھنے کو ملی۔ لیکن اس مادی ترقی کے ساتھ انسان نے اپنے لیے بہت سے خطرات کو بھی پیدا کیے ہیں۔ بہت سے سائنسدان اس ترقی کو ”غیر پائیدار ترقی“ کا نام دیتے ہیں جس نے قدرتی ماحول کو بگاڑ کے رکھ دیا جس کے ا نسانی معاشرے پر خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں او ر مستقبل میں بھی انسان کو اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

جرمنی کے ایک سائنسدان نے موجودہ معاشرے کو ”پُر خطر معاشرہ“ کا نام دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ جدید دنیا کی تشکیل میں آفات ایک جزو لا ینفک ہیں اور اس کے ڈیزائن میں شامل ہیں۔ گلوبل وارمنگ، کیمیائی و نیوکلیائی ہتھیار، ایٹم بم، حیاتیاتی ہتھیار، جنگیں، فضائی و زمینی ٹریفک کے حادثات، دہشتگردی، فیکٹریوں سے خطرناک کیمیکل کا اخراج، انسان کا ٹیکنالوجی پر بے تحاشا انحصار اور پہاڑوں کو زیر و زبر کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

مثال کے طور پر نیو کلئیر پلانٹ پر کام کرنے والے ٹیکنیشن کی ایک چھوٹی سی غلطی دنیا کو تباہی سے د و چار کر سکتی ہے۔ اسی طرح معلومات کے ذرائع مواصلات جیسا کہ انٹرنیٹ وغیرہ میں تھوڑا سا خلل ایک بہت بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آنے والی تباہی کو سائنسدان ”غیر قدرتی آفات“ یا ”انسان کی بنا ئی ہوئی آفات“ کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ زلزلے، سیلاب، قحط، طوفان، سونامی وغیرہ کو عام طور پر ”قدرتی آفات’‘ قرا ر دیا جاتا ہے۔ اب سائنسدان قدرتی آفات کو بھی انسانی اعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ“ قدرتی آفت جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے ”۔

برطانیہ میں حال ہی میں لکھی گئی کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے آفات کو انسان خود دعوت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جنگلات کی بے تحاشا کٹائی، دریاؤں کے کنارے ا ور پانڈ ایریاز میں انسانی بستیاں آباد کرنا، دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنا وغیرہ سیلاب جیسی تباہی کو دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح کمزور عمارتیں زلزلے کی تباہی کو ممکن بناتی ہیں۔ قحط کو وسائل کی نامنصفانہ تقسیم کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے اور جنگلی آگ کی بڑی وجہ انسانی ترقی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

یہ طبقہ فکر کہتا ہے کہ دراصل خطرات یعنی تباہی کے ذرا ئع موجود ہیں لیکن ان خطرات کو آفات کا عملی جامہ انسانی معاشرے کی کمزوریاں پہناتی ہیں۔ مثال کے طور پر برِاعظم انٹار کٹیکا میں آئے روز برفانی طوفان آتے رہتے ہیں لیکن چونکہ وہاں پر انسانی بستیاں نہیں ہیں تو تباہی بھی نہیں ہوتی اگر انسان وہاں پر بستیاں آباد کرنے کی تمنا رکھتا ہے تو اسے ان آفات کا سامنا کرنے کے بھی تیار رہنا چاہیے۔

ایک سائنسی طبقہ فکر یہ بھی تلقین کرتا ہے کہ آفات کے شدید اثرات سے بچنے کے لیے معاشرتی لچک کو فروغ دینا چاہیے۔ لچکدار معاشرے اور گروہ آفات کے اثرات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تباہی کے بعد ایسے معاشرے بہت جلد بحالی اور آباد کاری کی طرف لوٹتے ہیں اور ان کے پاس متبادل منصوبہ بندی کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مستقبل میں ممکنہ طور پر پیش آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ معاشرے معاشرتی انصاف، مساوات، برابری، انسانی وقار، جمہوری رویے، اچھے طرزِ حکمرانی اور مادی ساز و سامان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اوپر دے گئے سائنسی نظریات مذہبی نقطہ نظر کو جزوی طور پر یا یکسر مسترد کرتے ہیں۔

میرے نزدیک کسی مذہبی پیشوا کا آفات کو قدرت کا غیظ و غضب قرار دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہاں البتہ کسی خاص معاشرتی گروہ کو آفا ت کی وجہ قرار دینا انتہائی نامناسب ہے جس سے معاشرے میں تفریق اور تعصب جنم لیتا ہے۔ ہمیں تشویش تب لاحق ہونی چاہیے جب کوئی سائنسدان اس طرح کی غیر سائنسی سوچ رکھتا ہو کیوں کہ اس رویے سے تحقیق و تنقید کے راستے مسدود ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا حتمی جواب شاید کبھی نہ مل سکے کہ آفات قدرتی ہیں یا غیر قدرتی۔

لیکن ا س با ت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ۔ جھوٹ، فریب، بدیانتی، کرپشن، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، اختیارات کا نا جائز استعمال، غربت، معاشرتی نا ہمواری، فرسودہ رسم و رواج، کمزور طرزِ حکومت، طاقت اور دولت کا بے تحاشا ارتکاز جیسی معاشرتی برائیاں ان کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔ مذہب اور سائنس دونوں ان معاشرتی کمزوریوں کے معاشروں پر مضر اثرات پر اتفاق کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments