بیٹیوں کا وراثت میں حق اور ریاست کی ذمہ داری


ایک دفعہ ایک ان پڑھ غریب محنت کش مسیحی خاتون جو صبح سے شام تک کوئی چھ گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہے وہ اپنے خدا سے ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ باپ کی جائیداد میں بیٹیوں کا حصہ نہ رکھ کر خدا نے عورتوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اسلام نے تو بیٹی کا بیٹے سے آدھا حصہ جائیداد میں رکھا ہے لیکن مسیحی برادری میں خواتین کا جائیداد میں بالکل ہی کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ خاتون مسیحی ہیں، اور اپنے مذہب پر ان کا بہت گہرا اور پکا یقین ہے۔

ہر ماہ اپنی انتہائی محنت کی معمولی سی کمائی سے بھی چرچ کے لیے چندہ ضرور دیتی ہیں۔ حالانکہ ان کی کل کمائی ان کے اپنے گھر کے لیے بھی ناکافی ہوتی ہے۔ تمام گھر جن میں وہ کام کرتی ہیں ان کا بچا ہوا کھانا اور پرانے کپڑے بھی خوشی سے قبول کرتی ہیں۔ اسی سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں اور تن ڈھانپتی ہیں۔ لیکن چرچ کا دسواں کبھی نہیں بھولتی۔ میں نے اس سے کئی دفعہ بحث کی اور سخت جملے بھی کہے کہ جیسے پادری جی کو شرم آنی چاہیے آپ سے ہر مہینے پیسے قبول کرتے ہوئے۔ تو وہ جواب میں کہتی ہیں کہ میں تو خدا کے لیے دیتی ہوں۔ میں نے اپنی قبر میں جانا ہے جیسے سارے جملے ایک ہی سانس میں کہہ دیتی ہے۔ وہ خاتون ہر اتوار باقاعدگی سے اپنی ساری فیملی سمیت چرچ جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے خدا اور مذہب سے اپنی شکایت کو بھی جائز سمجھتی ہے کہ اس کو وراثتی جائیداد سے باہر رکھا گیا ہے۔

اس کے ساتھ اس کا مذہب جنس کی بنیاد پر جو تفریق برت رہا ہے وہ اسے پسند نہیں ہے۔ اس کے بس میں ہو تو وہ بھائیوں کے برابر وراثتی جائیداد میں اپنا حق چاہتی ہے لیکن کوئی بھی اس کی بات سن نہیں رہا۔ مذہب تو اس کی بات سن نہیں سکتا کیونکہ اس کا مذہب تو اس دن مکمل ہو گیا تھا جس دن ان کے پیغمبر اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ اس لیے مذہب میں کوئی ترمیم ممکن نہیں ہے۔

اس کی شکایت سن کر میں نے سوچا کہ ہماری ریاست کہاں کہاں فیل نہیں ہوئی۔ یہ ریاست جس کو ماں جیسا ہونا چاہیے تھا اس نے اپنے شہریوں کو کہاں کہاں دھوکہ نہیں دیا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کے حقوق کی نہیں بلکہ ان کے مذہب کی زیادہ فکر ہے۔ خاص طور پر بات اگر عورتوں اور بچیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ہو پھر تو ملا، پادری اور پنڈت ہی کی چلتی ہے۔ گھاٹے میں رہتی ہے تو عورت۔

مجھے ایسے ہی حیرانی ہوتی ہے جب پاکستان میں مختلف قسم کے ایکٹ مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے پاس ہو رہے ہوتے ہیں۔ اپنی جانب سے تو ہم اس کمیونٹی کے مذہبی حقوق پورے کر رہے ہوتے ہیں لیکن اصل میں ہم مذہب کے نام پر اس کمیونٹی کے کمزور طبقات کو ان کے شہری اور انسانی حقوق سے محروم کر رہے ہوتے ہیں۔

جیسے کئی مذاہب میں طلاق نہیں ہے تو اس کمیونٹی کی عورتیں ساری زندگی ذلیل و خوار ہوتی رہتی ہیں لیکن طلاق نہیں لے سکتیں کیونکہ ان کا مذہب اجازت نہیں دیتا اور ریاست سننے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ طلاق کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد پر فیملی قوانین بنا دے جو سب کے لیے برابر ہوں۔ اسی طرح سے اور بھی کئی معاملات ہیں جن میں کمزور طبقات، خاص طور خواتیں اور بچیاں مذہب کے نام پر عذاب میں مبتلا رہتی ہیں اور پاکستانی قوانین ان کی مدد نہیں کرتا۔

ریاست کو چاہیے کہ وہ سب شہریوں کے درمیان برابری پیدا کرے اور ان کے انسانی حقوق کی ذمہ داری لے۔ کوئی شہری کسی بھی مذہب کے ساتھ تعلق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، وہ ایک انسان اور ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے تو برابری کے سلوک کا حق دار ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے لیے ایک قانون بنا دے جو سب شہریوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے۔ مثال کے طور پر جائیداد کے بٹوارے کا ایک قانون ہونا چاہیے۔ ریاست اس قانون پر عمل درآمد کر دے۔ اس کے بعد اگر کوئی عورت یا مرد اپنے حصے کی جائیداد اپنے بھائی کو دینا چاہے تو ضرور ایسا کرے۔ لیکن ریاست تو ان کے درمیان انصاف اور برابری پیدا کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اگر ایسا ہو جائے تو معاشرے میں جنس کی بنیاد پر جو تفریق پیدا ہو گئی اس میں کافی بہتری آ سکتی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments