چہرے سے گرد ہٹنے لگی


تاریخ دنیا میں بہت سے ممالک اور بادشاہتیں ایسی رہیں کہ ان میں کچھ نے کنگ میکر کا کردار ادا کیا اور کچھ نے کنگ بن کر کنگ میکرز کے ایجنڈے کو پورا کیا۔ بعض مرتبہ تاریخ میں اس کا بھی ذکر آتا ہے کہ بادشاہت کی کرسی پر براجمان بادشاہ نے خود کو ہی اصل طاقت سمجھ کر بادشاہت کی کرسی نوازنے والوں کو نظر انداز کیا تو اس کے ساتھ تاریخ نے کیا بھیانک ستم کیا۔ ملک پاکستان کی تاریخ بھی ایسی ہی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

کہاں باہر سے امپورٹڈ لوگ لا کر عوامی رائے کے بر خلاف عوام پر مسلط رہے ہیں۔ شوکت عزیز ہوں یا عشرت العباد ہوں موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور ہوں یا ڈاکٹر ظفر مرزا خیر قطع نظر اس کے کہ ان کو کون لایا کیوں لایا ہم موجودہ صورتحال پر غور کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو ان کی کرسی سے ایسے بے عزت کر کے اتارا گیا اور جمہوریت کی ساکھ کو مضبوط دکھانے کے لئے اس کرسی پر سینٹر شبلی فراز جیسے نہایت عمدہ بندے کو لگایا گیا مگر ساتھ ہی ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ وزیر اعظم نے اپنا معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹنٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو لگا لیا جو کہ پہلے بھی سی پیک کو ہیڈ کر رہے ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر رہے ہیں۔

عاصم سلیم باجوہ کو ایسی جگہ تعینات کرنا جہاں سے نا صرف ملک بھر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی حکومت کی کارکردگی کا کچا چٹھا جاری ہوتا ہے۔ ایک انتہائی زبردست سیاسی موو ہے اور یہ موو کھیلنے کے لئے جو سیاسی بصیرت درکار ہے۔ وہ خان صاحب کہ پاس تو ہے۔ نہیں تو خان صاحب معاون خصوصی کے طور پر جس ڈیوٹی پر براجمان ہیں ان سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے البتہ عالمی سطح پر فردوس آپا اور فواد دادا نے پاکستان کا موقف اور امیج ڈیڑھ سال میں جتنا خراب کیا ہے۔ وہ شاید اب بہتر نظر آئے گا۔ قطع نظر اس سے کہ بہتر ہونا اور نظر آنا دو مختلف چیزیں ہیں۔

حال ہی میں وہ تاریخ گزری ہے جس میں آٹا چینی چوروں کے خلاف فرانزک رپورٹ ٹیبل ہونی تھی اور خان صاحب نے ان ڈاکوؤں کو کڑی سزا دینی تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور رپورٹ تین ہفتے موخر ہو گئی اس موقع پر ایک مثال واضح ہے جب کبھی محلے میں کوئی چوری کرتا پکڑا جائے تو محلے دار اس کو خوب مارتے ہیں اور ان سب میں سے ایک اچانک نکل کر آتا ہے اور چور کو دو تھپڑ لگا کر کہتا ہے۔ چلو میں تمہیں پولیس کے حوالے کر کے آتا ہوں اور محلے داروں کے ہجوم سے اس کو بچا کے لے جاتا ہے۔ یہی حال ہمارے ملک میں آٹا چینی چور اور ان کے رپورٹ پر ان کو سزا دینے کے معاملے میں موجود ہے۔

اب ملک کے اندر بھی کسی بھی قسم کے حکومتی پالیسی پر تنقید اور حکومت کے تضاد بیانات پر وضاحت جن سے طلب کرنی ہے۔ وہ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ ہوں گے اور اب ملک کہ اندر بھی پاکستان کا امیج اور حکومت کی کارکردگی انتہائی متاثر کن ہو گی اور آزادی صحافت کا راگ الاپنے والوں کی آزادی کھل کر دیکھنے کو ملے گی۔

عظیم بٹ، لاہور
Latest posts by عظیم بٹ، لاہور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments