کرونا وائرس اور عالمی صورتِ حال


کروناوائرس کے حملے نے دنیا بھر کے دانشوروں، سائنسدانوں اور صحافیوں کو ماضی میں وارد ہونے والی عالمی وباؤں کی جانب پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ خاص طور پر 1918 میں لاکھوں اموات کا باعث بننے والے سپینش فلوکی تفصیلات اس وقت زبان زد عام ہیں۔ اس فلو کا دورانیہ کیا تھا؟ کون کون سے ممالک زیادہ متاثر ہوئے؟ کتنے انسان اس میں لقمۂ اجل بنے؟ اس وبائی دور میں کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں اور اس پہ قابو پانے والی ویکسین کتنے عرصے میں دریافت ہوئی؟

اس جیسے مختلف سوالات کے جوابات تاریخی حوالوں کے ساتھ سوشل، الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا میں مسلسل زیر بحث ہیں۔ بظاہر اس رویے کے افادیت یہ ہے کہ آج کی وبائی صورت حال کو تاریخی تناظر میں پرکھ کراس سے نبرد آزمائی کے لیے کامیاب لائحہ عمل تلاش کیا جائے لیکن اس رد عمل میں ”تاریخ خود کو دہراتی ہے“ کے مقولے کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ اس مقولہ کے مطابق ہر صدی میں کچھ ایسے دگرگوں واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن کی بہترتفہیم کے لیے ماضی کی طرف مراجعت ضروری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جہاں کرونا وبا کے آئینۂ ایام میں ماضی کے عکس نئی معنویت سے ابھر رہے ہیں وہاں لاکھو ں جانوں کے افسوس ناک نقصان کے ساتھ بجنے والا اقتصادی تباہی کا الارم بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم پچھلی صدی کے عالمی اقتصادی بحران پہ نظر ڈالیں۔

1929 کے عالمی اقتصادی بحران کے آغازسے پہلے جنگ عظیم اول کی تھکی ہاری قومیں جن بقائے باہمی اور جمہوری قدروں کی طرف پیش قدمی کر رہی تھیں اس بحران میں اچانک غیر اہم ہو گیں۔ ہر قوم اپنے اقتصادی مسایل سے لڑنے کے لیے جغرافیائی دیواریں بلند کرنے لگی۔ ٹریٹی آف ورسائی کے بعد جرمنی جیسی، پہلی جنگ عظیم میں ناکامی کا منہ دیکھنے والی، قوم میں دبا ہوا الٹرا نیشنل ازم کا تصورنہ صرف کھل کر سامنے آیا بلکہ جنگ عظیم دوم کی کلیدی وجہ بھی بنا۔

آج اکیسویں صدی میں جب گلوبلائزیشن کی چمک نے آنکھوں کو خیرہ کر رکھا تھامودی اور ٹرمپ جیسے قوم پرست سربراہان مملکت کا انتخاب اس بات کی دلیل ہے کہ دنیاقوم پرستی کی پذیرائی پر مایل ہے۔ ایسے میں اس عالمی وبا سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان نے نام نہاد گلوبلائزیشن کاپردہ چاک کر دیا اوردنیا ایک بار پھر پچھلی صدی کی مانندعالمی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے لگی۔ عالمی امن کا خواب دیکھنے والوں کے نزدیک یہ موقع عالمی قوتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو نے کا تھا۔ مشہور امریکی تجزیہ نگار رچرڈ ہاس اپنے حالیہ آرٹیکل بعنوان
At War With a Virus
میں لکھتے ہیں کہ اس عالمی وبا کے خلاف روایتی جنگوں کے الائنس کی طرح مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن اس تجزیہ کے برعکس اہل سیاست کی کچھ اور ہی مرضی ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال امریکی صدر کی کرونا وائرس کے حوالے سے چین پر الزام تراشی، اپنے تیل کو کم قیمت پر بیچنے کے بجائے ذخیرہ کرنے کی نیت اور اقوام متحدہ کو امدادی رقوم دینے سے انکارہے۔ اگر عالمی طاقتیں نے نئے ورلڈ آرڈر کی دوڑ میں دوسری قوموں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا سلسلہ یونہی جاری رکھا تو کچھ بعید نہیں کہ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کی مثبت کاوشیں غیر موثر ہو کر رہ جائیں۔

ایسی اعتدال سے بڑھی ہوئی قوم پرستی عالمی وبا ہی میں نہیں بلکہ اقتصادی بحران میں بھی کسی بڑے انسانی المیے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ کرونا اور اس کے بعد آنے والی ممکنہ اقتصادی بدحالی کے مقابلے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کوبقائے باہمی کے اصولوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ قوم پرستی کے انتہاپسند تصورات کے وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنا ہو گی وگرنہ بقول شاعر:۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اتراتو میں نے دیکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments