کورونا وائرس: بائیولوجیکل ہتھیار یا قدرتی آزمائش


حالیہ عرصے میں دنیا بھر کے عوام کو شدید اذیت میں مبتلا کرنے والے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے تاحال یہ بحث جاری ہے کہ کیا نوول کورونا وائرس کسی تجربہ گاہ سے نکلا ہوا ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے یا پھر ایک قدرتی آفت ہے؟ عالمی ادارہ صحت کے حکام کے مطابق تمام دستیاب شواہد بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس کا ماخذ ایک جاندار ہے اور یہ کسی تجربہ گاہ میں تیار نہیں کیا گیا ہے۔ جاندار سے متعلق بھی حتمی رائے ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے البتہ ممکنہ طور پر چمگادڑ اور پینگولین کو وائرس کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔

معروف طبی جریدے ”دی لانسیٹ“ میں فروری کے دوران معروف ماہر امراض کرسٹین ڈروسٹین کی سربراہی میں دنیا کے چھبیس ممتاز سائنسدانوں کا اس حوالے سے ایک مشترکہ بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں وائرس کی تحقیق سے متعلق شفاف معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے مگر افواہوں اور غلط معلومات کے باعث اس تعاون کو خطرات کا سامنا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ وائرس قدرتی ہے اور اس حوالے سے دیگر سازشی نظریات کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے جو دنیا بھر میں بے چینی کا سبب بن رہے ہیں۔

دنیا بھر میں ماہرین کی جانب سے وائرس کی جینیاتی ساخت سے متعلق شائع کردہ تحقیقی مواد میں بھی وائرس کا ماخذ جنگلی حیات کو قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانی عمل دخل کے کوئی شواہد نظر نہیں آتے ہیں۔ اسی طرح مارچ کے وسط میں سویڈن کے تحقیقی ادارے سے وابستہ معروف مائیکروبائیولوجسٹ کرسٹیان اینڈرسن نے بھی طبی جریدے ”نیچر میڈیسن“ میں ایک تحقیقی مقالے میں لکھا کہ وائرس کسی لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی وائرس کی ساخت میں ارادی طور پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیمبرگ جرمنی سے وابستہ پروفیسر گینر جیری میاس کے مطابق تو دنیا کی کوئی بھی بہترین لیبارٹری ایسے وائرس تیار نہیں کر سکتی ہے۔

نوول کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ابتدائی مرکز ووہان کا تذکرہ بھی دنیا بھر میں کیا گیا اور بعد میں اسی شہر کے ایک ادارے ”ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی“ پر مختلف حلقوں نے انگلیاں اٹھائیں کہ تجربہ گاہ میں انسانی غلطی یا کسی حادثے کے باعث وائرس کا اخراج ہوا ہے۔ اس ادارے سے وابستہ محقیقین نے ایسے دعوؤں کو بے بنیاد اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ ”ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی“ کا قیام انیس سو چھپن میں عمل میں لایا گیا تھا اور اسے چین سمیت ایشیا بھر میں اعلیٰ ترین بائیو سیفٹی لیب کا درجہ حاصل ہے۔

یہاں دنیا میں مہلک ترین پیتھوجین سے متعلق تحقیق کی جا سکتی ہے۔ یہ لیبارٹری ووہان شہر کے مرکز سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ادارے سے وابستہ ماہرین بھی واضح کر چکے ہیں کہ لیبارٹری میں عالمی معیارات کے حامل سیکیورٹی نظام کے باعث وائرس کا اخراج بالکل ناممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق تیس دسمبر کو نوول کورونا وائرس سے متاثرہ اولین مریضوں کے نمونہ جات بھیجنے سے پہلے تک لیبارٹری میں اس نئے طرز کے وائرس پر تحقیق نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ادارے کا کوئی اہلکار وائرس سے متاثر ہوا ہے۔

عالمی سطح پر متعدی امراض پر تحقیق کرنے والے معروف ماہر پیٹر ڈیسزیک پندرہ سال تک ”ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی“ کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں، انہوں نے بھی حال ہی میں ایک بیان میں لیبارٹری سے وائرس کے اخراج سے متعلق قیاس آرائیوں کو حماقت قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی طرز کے وائرس کی لیبارٹری میں تیاری ناممکن ہے۔ بیس اپریل کو دو امریکی صحافیوں نے ”گروے زون“ میں ایک تحقیقی رپورٹ میں ”ووہان انسٹیٹیوف آف وائرولوجی“ سے وائرس کے اخراج کے امریکی دعوؤں کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ”گمراہ کن“ معلومات پر مبنی ہتھیار قرار دیا۔ اسے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق غلط معلومات سے تعبیر کیا گیا جسے امریکہ نے عراق پر حملے کے لیے ایک جواز کے طور پر استعمال کیا مگر بعد کے حقائق نے ثابت کیا کہ عراق کے پاس کسی قسم کے خطرناک ہتھیار سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔

حالیہ عرصے میں ایک رحجان یہ بھی سامنے آیا کہ نوول کورونا وائرس کو امریکہ سمیت چند مغربی حلقوں کی جانب سے ”چائنیز وائرس“ اور ”ووہان وائرس“ بھی قرار دیا گیا۔ عالمی سطح پر وائرس کے آغاز سے متعلق تحقیق بدستور جاری ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں نوول کورونا وائرس کے کیسز سامنے آئے مگر یہ لازمی نہیں کہ ووہان ہی وہ جگہ ہو جہاں وائرس نے جنم لیا ہو۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ HIV انفیکشن سب سے پہلے امریکہ میں رپورٹ ہوا لیکن اس کی شروعات ممکنہ طور پر مغربی افریقی ممالک میں ہوئی۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے سال 2015 میں انسانی متعدی امراض کو باقاعدہ نام دینے کے لیے سفارشات جاری کیں تاکہ کسی ملک، خطے، فرد حتیٰ کہ کسی جاندار کے نام کے استعمال کی بھی حوصلہ شکنی ہو۔ معروف سائنسی جریدے ”نیچر“ نے سترہ اپریل کو اپنے اداریے میں کووڈ۔ 19 کو کسی مخصوص مقام سے جوڑنے کے رویوں کو غیر ذمہ دارانہ اور بہتان تراشی کے مترادف قرار دیا۔ ”چائنیز وائرس“ اور ”ووہان وائرس“ جیسے الفاظ کا استعمال نسلی امتیاز کو ہوا دیتا ہے بالخصوص چینی باشندوں اور ایشیائی لوگوں کو اس حوالے سے مختلف ممالک میں پریشانی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

چین کو معلومات پوشیدہ رکھنے کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔ کہا گیا کہ نوول کورونا وائرس کا آغاز تو نومبر کے وسط میں ہو چکا تھا مگر اگلے پینتالیس روز تک معلومات کو عام نہیں کیا گیا۔ حقائق کے تناظر میں چینی حکام کو ستائیس دسمبر کو نئی قسم کے نمونیا کیسز سے متعلق آگاہ کیا گیا جس کی روشنی میں اکتیس دسمبر کو نئے وائرس کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ سردیوں میں بخار، نزلہ، زکام اور نمونیا عام امراض ہیں اور کووڈ۔

19 کی بنیادی علامات میں یہ تمام امراض شامل ہیں۔ ووہان کی آبادی تقریباً سوا کروڑ ہے لہذا اتنا آسان نہیں کہ آپ فوری طور پر مریضوں کی تشخیص کر سکیں بالخصوص ایسی صورتحال میں جب وائرس بھی نئی قسم کا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ادہانوم گیبریسس نے چینی ڈاکٹرز اور شعبہ صحت کے حکام کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں بر وقت اور موئثر قرار دیا۔

چین نے اس کے بعد ڈبلیو ایچ او سمیت دیگر دنیا سے انتہائی شفافیت اور کشادگی سے بروقت معلومات کا تبادلہ کیا۔ اکتیس دسمبر کو چین میں ڈبلیو ایچ او کے دفتر کو مطلع کیا گیا۔ تین جنوری کو امریکہ سمیت دیگر دنیا کو وبائی صورتحال سے مسلسل آگاہ رکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ دیگر ممالک لازمی تیاریوں کے لیے اپنے اقدامات میں تیزی لائیں۔ آٹھ جنوری کو چین کے قومی صحت عامہ کمیشن نے اعلان کیا کہ نئے وائرس کے باعث وبائی صورتحال کا سامنا ہے۔

بارہ جنوری کو چین نے ڈبلیو ایچ او کو وائرس کی جینیاتی ساخت اور ترتیب سے متعلق آگاہ کیا۔ بیس جنوری کو چینی حکام نے کلینکل شواہد کی روشنی میں بتایا کہ وائرس ایک فرد سے دوسرے فرد تک تیزی سے منتقل ہو سکتا ہے۔ ایک نئی قسم کے وائرس کے بارے میں انتہائی محدود معلومات کی دستیابی کے باوجود چین نے سخت گیر اور طاقتور اقدامات اٹھائے جسمیں تیئیس جنوری کو ووہان کا لاک ڈاؤن اور چھ کروڑ سے زائد آبادی کے حامل صوبہ حوبے میں نقل و حمل پر پابندی کے اقدامات قابل ذکر ہیں۔

اس حوالے سے متعدد حلقوں کی جانب سے کہا گیا کہ ووہان کے لاک ڈاؤن سے عالمی سطح پر وبا کے پھیلاؤ کی موئثر روک تھام میں مدد ملی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ووہان میں لاک ڈاؤن کے وقت چین میں متاثرہ مریضوں کی تعداد 571 تھی، چین سے باہر یہ تعداد صرف 9 تھی جبکہ ان میں ایک بھی فرد یورپ سے شامل نہیں تھا۔ ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی تیئیس فروری کو عالمی سطح پر مصدقہ مریضوں کی تعداد 78,811 ہو گئی جبکہ اس مجموعی تعداد کا صرف 2.2 فیصد چین سے باہر تھا۔ اس وقت دنیا بھر میں نوول کورونا وائرس سے شدید متاثرہ ملک امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ نے وبا کی سنگینی کو بہت ہلکا لیا اور انیس مارچ تک اُن کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے جس کا خمیازہ آج بھگتا جا رہا ہے۔

ان سارے حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے معاشی اور سماجی سطح پر قربانی دیتے ہوئے دنیا کو قیمتی مہلت فراہم کی لیکن اکثریتی ممالک نے یہ مہلت ضائع کر دی اور آج جب حالات قابو سے باہر ہوئے تو بجائے اپنی کو تاہی کو تسلیم کرنے کے چین مخالف بیان بازی اور الزام تراشی کا بازار گرم کر دیا۔ یہ وقت سیاست اور الزام تراشی کا نہیں بلکہ مل کر آزمائش کا سامنا کرنے کا ہے۔ تاخیر کی مزید گنجائش نہیں ہے بلکہ اس بات کا ادراک لازم ہے کہ انسداد وبا کے لیے عالمی تعاون کی مضبوطی وبا کے خلاف فتح کی اساس ہے اور اس میں چین، امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کا کردار تاریخ کے باب میں درج ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments