پاکستان میں عورت ہی برائی کی جڑ ہے


پاکستان میں 1977 سے پہلے کوئی بے حیائی نہیں تھی، اس سے پہلے کا معاشرہ بہت ہی حیا دار اور پاکیزہ معاشرہ تھا، نہ ہی بے غیرتی کی وجہ سے سیلاب آتے تھے اور نہ ہی بے شرمی کی وجہ سے زمین ہلتی تھی، اور نہ ہی قدرتی آفات کو عورتوں کی لباس کی وجہ قرار دیا جاتا تھا۔

لیکن پھر کرنا یوں ہوا کہ 1977 میں ملک میں ”اسلامی“ انقلاب آگیا، ایک نہایت ہی پارسا اور نیک انسان نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا، پھر ہم پاکستانیوں کو پتا چلا کہ ملک میں تو بہت ہی بے حیائی ہے، وہ پارسا تو تھا ہی اس نے اپنی ”پارسائی“ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس بے حیائی، بے شرمی اور بے غیرتی کو چشم زدن میں ختم کر دیا، معاشرہ اتنا پاکیزہ ہوگیا کہ بیوی اپنے خاوند کے سامنے بھی دوپٹہ اوڑھ کر آتی تھی۔

پھر غیب سے کچھ مضامین وارد ہوئے اور امریکہ بہادر کو ”اسلام“ کی ضرورت پڑ گئی، امریکی امداد سے جگہ جگہ مدرسے کھل گئے، وہ مولوی جو کل تک سائیکل پر پھرتے تھے پلک جھپکتے ہی پجیرو پر آگئے، اسلام آباد میں مہنگے سیکٹروں میں ان کے بڑے بڑے گھر بن گئے، ڈالروں کی ریل پیل ایسی ہوئی کہ مقتدر قوتوں کے بہت سے لوگ لکھ پتی سے کروڑ پتی اور پھر کروڑ پتی سے ارب پتی بن گئے۔ ان مدرسوں میں غریب کے بچے روٹی کپڑے کے لالچ میں مجاہد بنتے گئے اور جنگ کا ایندھن بن کر جنت کے ٹکٹ حاصل کرتے رہے۔

اس اسلامی انقلاب کے اور بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہم کو پتا چل گیا کہ برائیوں کی اصل جڑ عورت ہے اور اگر اس جڑ کو ہی کاٹ دیا جائے تو دوسری برائیاں خود بخود ختم ہو جائیں گی، ہر بلا، ہر مصیبت، وبا اور قدرتی آفات اس کی وجہ سے ہی مملکت خداداد میں وارد ہوتی ہیں، زلزلے جینز پہننے والی عورتوں کی وجہ سے آتے ہیں، سیلاب آجائے تو بے شرم عورتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور اگر کوئی عالمی وبا آجائے تو اس وبا کی وجہ پاکستان کی عورتیں ہی ٹھہرتی ہیں۔

ہم نے پاکستان کی آدھی آبادی کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے، اس کو بچے پیدا کرنے والی مشین بنا دیا ہے، اور اس کا کام بس اتنا ہے کہ بچے پیدا کرے اور اپنے ”مجازی خدا“ کا حکم بجا لائے۔ کوئی عورت اکیلے کہیں نہ آسکتی ہے اور نہ جا سکتی ہے، کہیں بھی آنے جانے کے لئے اس کو ایک محافظ کی ضرورت ہوتی ہے، بے شک وہ محافظ گیارہ سال کا بچہ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ باہر بہت سے حیا دار مرد ہوتے ہیں، اکیلی عورت کو دیکھ کر ان کے جذبات مشتعل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

کچھ سال پہلے ملائیشیا جانے کا اتفاق ہوا، بہت ہی صاف ستھرا اور ترقی میں کسی بھی یورپی ملک سے کم نہیں، دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کچھ مسلمان ملک ایسے بھی ہیں جو صفائی کو نصف ایمان سمجھتے ہی نہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ چینی النسل مسلمان عورتیں چھوٹے قد، چپٹے ناک، پورے کپڑے اور سر کے اوپر کپڑا جس کو حجاب کہتے ہیں، اسکوٹر پر فراٹے بھرتی ہوئی پاس سے گزر جاتی ہیں، کسی نے سڑک کنارے چھوٹا سا کھوکھا لگایا ہوا ہے اور وہاں وہ ملائیشین کھانے بیچ رہی ہے، ویٹر بھی وہ ہی ہے، برتن بھی وہ ہی دھو رہی ہے، کھانا بھی وہ ہی پیش کر رہی ہے اور پیسے بھی وہ ہی لے رہی ہے غرضیکہ پورا چھپر نما ریسٹورنٹ وہ اکیلے چلا رہی ہے۔ کوئی مرد اس کو تاڑتا نہیں اور نہ ہی اس کو گھورتا ہے اور نہ ہی کوئی ذومعنی فقرے کسنے کی گھٹیا کوشش کرتا ہے اور نہ ہی اس کو چھو کر اپنی خباثت کو حظ پہنچانے کی نیچ سعی کرتا ہے۔

یہ ملک بھی مسلمان ہے، عورتیں بھی مسلمان ہیں اور مرد بھی، راسخ العقیدہ سنی مسلمان، لیکن وہاں کسی ”مقبول“ کو اسکوٹر چلاتے ہوئے زاویے نظر نہیں آتے، وہاں عورت کو ہوٹل چلاتے دیکھ کر کسی ”جمیل“ کو بے حیائی نظر نہیں آتی، وہاں کوئی خطیب کسی آفت اور بلا کو عورتوں کی بے حیائی کی وجہ قرار نہیں دیتا۔ اپنے پیارے وطن میں ہر آفت، ہر بلا، ہر برائی کی جڑ ایک ہی ہے اور وہ ہے عورت، کیوں نہ اس عورت کو ہی ختم کر دیا جائے تاکہ مملکت خدادا میں نہ کوئی آفت آئے اور نہ کوئی وبا پھوٹے، اور نہ ہی غیرت کی وجہ سے مردوں کو قاتل بننا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments