ریٹائرڈ فوجی کی تقرری کی مخالفت کیوں؟


لکھنا واقعی بہت بڑی ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کوئی ایک شخص بھی آپ کے لکھے کی وجہ سے اپنی سوچ بدل دیتا ہے۔ جب لوگ آپ کے لکھے سے خود میں بہتری لارہے ہوں تب لکھاری پر بھی لازم ہے کہ وہ قلم کو جانبداری کی روشنائی میں ڈبو ڈبو کر نہ لکھے۔

مجھے نہیں معلوم کہ میری اس پوسٹ کی وجہ سے قارئین میرے متعلق کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ ویسے اب وضاحتیں دینا بھی درست نہیں کیونکہ جتنی وضاحتیں دینا تھیں دے چکا۔ کئی مرتبہ اس بات کی وضاحت دے چکا ہوں کہ میرا انداز نفس مسئلہ کو زیربحث لانا ہے۔ نہ کہ کسی مخصوص جماعت، نظریہ یا شخصیت کی حمایت و مخالفت کرتا رہوں۔

موضوع کی طرف آتے ہیں، ریٹائرڈ جنرل عاصم باجوہ کی بحیثیت معاون خصوصی تقرری کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید کا طوفان امڈ آیا۔ گو کہ زیادہ تنقید حکومت پر تھی مگر ساتھ ساتھ عاصم باجوہ پر بھی خوب تنقید کے نشتر برسائے گئے۔ کیا غلط کیا صحیح ہر کسی نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ مگر ایک بحث جو کرنا باقی ہے جو اس موضوع پر مجھے ابھی تک پڑھنے کو نہیں ملی۔

سوال یہ تھا کہ بڑے بڑے عہدوں پر ریٹائرڈ فوجیوں کی ہی تقرری کیوں ہوتی ہے؟

اس سوال کو زیربحث لانے سے پہلے ایک سوال قارئیں سے ہے کہ آخر ریٹائرڈ فوجیوں کی تقرری کیوں نہ ہوں؟ آپ قارئین اس سوال کا جواب اپنے انداز سے دے سکتے ہیں مگر میں متوقع جوابات دے دیتا ہوں۔

اس سوال کا ایک متوقع جواب تو یہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارے ملکی آئین و قوانین میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ملکی آئین و قوانین میں اس چیز کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی ریٹائرڈ فوجی کسی بڑے عہدے پر تعینات نہیں ہوسکتا تو پھر اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی۔ آئین و قوانین کی رو سے جس چیز پر پابندی ہوگی اس کے خلاف کوئی بھی اقدام اٹھانا غیرقانونی سمجھا جائے گا۔ یہ اب آپ قارئین نے ڈھونڈنا کے کہ ملکی قوانین میں ایسی کوئی پابندی ہے کہ نہیں۔

دوسرا متوقع جواب یہ ہوسکتا ہے چونکہ فوجیوں کا حکمرانوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے ہیں اس لئے وہ تعلقات کی بنیاد پر بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ یہ بالکل حقیقت ہے مگر تعلقات کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ جسے بنیاد بناتے ہوئے اعتراض کیا جائے۔

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں کہ اگر یہی ریٹائرڈ جرنیل جو اپنی زندگی کا خاصا حصہ فوج میں گزار آتا ہے وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد دبئی، آسٹریلیا، سعودیہ عربیہ، امریکہ، برطانیہ یا کسی اور یورپی ملک میں جاکر رہنا شروع کردے جو کہ اس کا ذاتی معاملہ ہے اور حق بھی ہے وہ بھی ہم سے ہضم نہیں ہوتا۔ ہم فٹ سے کہتے ہیں کہ ملک کا سارا پیسہ لوٹ کر اب باہر جاکر عیاشیاں ماری جارہی ہیں۔ اور یہ ہوتا بھی رہا ہے کئی جرنیلوں پر کڑی تنقید صرف اس لئے ہوئی ہے کہ وہ ملک سے باہر جاکر رہنے لگے ہیں۔ اور اگر کوئی فوجی اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں رہ کر اپنی خدمات سرانجام دینا چاہے اور کسی محکمہ یا شعبہ میں رہ کر اس میں بہتر لانے کی کوشش کرے تو ہم اس کی فوج والی زندگی کو بنیاد بنا کر اس کے ایک شہری ہونے کے حق کو بھی سلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک سابق کرکٹر اگر ریٹائرمنٹ کے بعد ملکی سیاست میں آجائے تو ہمیں قبول ہے، ایک ریٹائرڈ جج کو اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ادارے یا محکمہ کی سربراہی پر مقرر کیا جائے تو ہم تعریف کرتے ہیں۔ ایک پولیس افسر اپنی ریٹائرڈ کے بعد کسی شعبہ کو سنبھال لے تو ہم کہتے ہیں فلاں ریٹائرڈ آئی جی یا ڈی آئی جی وغیرہ اس ادارے کو بہتری کی طرف لے جائے گا۔ مگر ایک ریٹائرڈ فوجی کی کسی اہم عہدے پر عہدے پر تقرری ہوجائے تو ہم تنقید کے نشتر برساتے ہیں۔

ہاں تنقید کی وجہ اس ریٹائرڈ فوجی، جج، پولیس افسر یا کسی کرکٹر کی نا اہلی، بدعنوانی، یا قابلیت ہو پھر تو ایسی تنقید بالکل درست ہے کیونکہ ایک کرپٹ و نا اہل شخص کی کسی اہم عہدے پر تقرری کسی صورت درست نہیں ہے۔ اگر وجہ اس کی سابقہ زندگی ہے یا اس کا ادارہ ہے یا اس کا عہدہ ہے تو پھر یہ تنقید محض تعصب ہے۔ اور یہ تقرریاں دیگر شعبوں سے منسلک لوگوں کی بھی ذاتی تعلقات پر ہوتی رہتی ہیں۔ ہر حکومت اپنے کام و مفاد کے بندے سلیکٹ کرے گی یہ تو وقت کے حکمران پر منحصر ہے کہ وہ کیسے لوگوں کا انتخاب کرتا ہے۔

فوجیوں کے صرف فوجی ہونے کی وجہ سے کسی عہدے پر تقرری پر تنقید کرنا میرے خیال میں بیجا ہے۔ اگر تنقید کی کوئی مخصوص وجہ ہے پھر تو تنقید درست ہے اور کرنی بھی چاہیے۔ اور یہ تنقید اس ریٹائرڈ فوجی کے بجائے اتھارٹی پر زیادہ ہونی چاہیے جو کسی بھی ذاتی مفاد یا پریشر میں آکر سلیکشن کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments