عمران حکومت اور میڈیا: تاریخی پس منظر اور امکانات


انیس سو نناوے کی ایک شام اس وقت کے فوجی رہنما نے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا اور خود ملک کا چیف ایگزیکٹو بن بیٹھا۔ اس نے جن افراد پر مشتمل اپنی پہلی ٹیم بنائی ان میں جاوید جبار سرفہرست تھے۔ جو اس سے قبل انیس سو اٹھاسی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں وزیر اطلاعات رہ چکے تھے۔ جنرل مشرف نے جاوید جبار کو اپنا اطلاعات اور قومی امور کا مشیر مقرر کیا۔ تقرری کے بعد جاوید جبار کی پہلی بنیادی ذمہ داری یہ ٹھہری کہ وہ ملک کے اندراور باہر اس بات کی تشریح کرے کہ جنرل صاحب نے منتخب حکومت کو کیوں اور کس مجبوری کے تحت برطرف کیا ۔ جاوید جبار ایک جہاندیدہ اور ذہین آدمی ہے، اس نے اپنے منفرد انداز میں مختلف فورمز پر اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے جنرل مشرف کو میڈیا کو آزاد کرنے اور آزاد میڈیا پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا بھی مشورہ دیا۔

اصل میں انیس سو چھیانوے کی نگراں حکومت کے دوران سینیٹر صاحب نے ایک مسودہ تیار کیا تھا مگر وہ نگران حکومت کے جاتے ہی سرکاری فائلوں میں کہیں دب گیا لیکن جب جاوید جبار جنرل مشرف کی ٹیم کا حصہ بنے، تو انہوں نے اس پرانے مسودے سے مٹی ہٹاکر، جنرل صاحب کی خدمت میں اسے پیش کیا۔تاہم بظاہر اس وقت کے کچھ حالات اور واقعات نے بھی آزاد میڈیا کے آپشن پر سرکار کو مجبور کیا، جس کے نتیجے میں ملک میں بالاآخر آزاد میڈیا وجود میں آیا۔ نائن الیون کے بعد، جب امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پیش آِئی تب جنرل مشرف اور ان کی ٹیم نے سرکاری میڈیا کے ساتھ نجی میڈیا کو بھی استعمال کیا اور اس تصور کو پختہ کرنے کی کوشش کی پاکستان اب جنرل ضیا کے وقت کی رجعت پسند ریاست نہیں رہا، بلکہ اب یہ ایک آزاد خیال، روشن خیال اور سائنسی سوچ کی حامل ریاست بننے کی طرف پیش قدمی کرچکا ہے۔ ملک کے اندر ایک طویل عرصے سے آمریت اور ملائیت کے ماحول سے تنگ معاشرے نے اس نئی پیش قدمی کو ویلکم کیا جس کا ریفلیکشن بذات خود میڈیا ہی ٹھہرا۔

2002 میں جنرل مشرف نے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے اسی کنگز پارٹی کو اقتدار میں لے آیا۔ آزاد میڈیا معاملے کی حقیقت سمجھنے کے باوجود یہ سوچ کر سپورٹ کرتا رہا کہ جنرل ضیا کے رجعت پرست اور ملایت والے بند معاشرے سے یہ آزاد خیال سوچ بہتر ہے، جو بالآخر ملک میں آزاد معاشرے کے تشکیل میں مددگار ثابت ہو گی۔ یہ دور بظاہرتو ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت اور شوکت عزیز کا تھا، لیکن اصل حکمران جنرل صاحب خود تھے۔ دریں اثنا مشرف حکومت نے میڈیا مالکان کی اجارہ داری کو ایک طرح سے کراس میڈیا اونرشپ کے قانون کے ذریعے روکنے کی کوشش کی، لیکن اس خواہش کو حقیقت میں تبدیل نہیں کیا جاسکا اور میڈیا نے مستقبل کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھا۔ بہت سارے نئی ٹی وی اور ریڈیو چینلز کھل گئےاور میڈیا نے انڈسٹری کی شکل میں ہزاروں افراد کو ملازمت فراہم کی۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد مشکل سے تین، چار سال کے اندر میڈیا اتنا طاقتور نظر آنےلگا کہ لوگ کہنا شروع ہوگئے کہ اب وہ حالات نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جب چاہے مارشل لا لگا دے یا میڈیا کی ھیئت اورجسامت کو کم کر سکے اور یہ بھی کہ اتنا وائبرنٹ میڈیا مارشل لا لگنے نہیں دے گا۔

اسی دوران جنرل مشرف نے ظفراللہ جمالی کو ہٹا کر شوکت عزیزکو اپنا نیا وزیر اعظم بنوایا۔ نئی کابینہ میں وزیراطلاعات بھی تبدیل ہوا۔ پنڈی کے بیسٹ بڈی سمجھےجانے والے شیخ رشید کو محمدعلی درانی نےریپلیس کیا۔ اسی عرصے میں لال مسجد اور افتخار چودھری کی برطرفی کے دو اہم واقعات پیش آئے، جس میں سے لال مسجد واقعے کے دوران میڈیا نے تو مشرف حکومت کو زیادہ تر سپورٹ کیا اور سرکار اور لال مسجد انتظامیہ کے مابین رابطے میں اہم کردار بھی ادا کیا لیکن چیف جسٹس افتخار چوہدری کے معاملے پر جنرل مشرف اور میڈیا کےدرمیان ٹھن گئی۔ نتیجے میں جنرل صاحب نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کا نفاذ کر کے صورتحال پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ، کچھ چھپے ہوئے فیکٹرز نےجنرل مشرف کو پہلے فوجی کمانڈ اور بعد میں اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا۔ اس دوران یہ تصور اور بھی پختہ ہوا کہ وائبرنٹ میڈیا کے ہوتے ہوئے اب آمریت کا سکہ نہیں چل سکےگا۔

2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت وجود میں آئی، جس میں محترمہ شیری رحمان، یہ سوچ کر کہ وہ خود ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں اور ذاتی طور پر میڈیا میں اچھے تعلقات رکھتی ہیں کو وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا۔ لیکن آصف علی زرداری کی سربراہی میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی سرکار اور صدارتی محل پر کرپشن کے متواتر الزامات نے معاملات کواتنا آلودہ کردیا کہ شیری رحمان کے لئے اپنی پارٹی کا دفاع ممکن نہ رہا۔ شیری رحمان کو وزیر اعظم گیلانی کے قریب ہونے کے باوجود مستعفی ہونا پڑا،جس کے بعد پارٹی کے ایک سرکردہ ممبر، قمر زمان کائرہ کو ذمہ داریاں سونپیں گئیں۔ تاہم اب خفیہ مالی اعانت کے باوجود میڈیا کا انتظام کرنا ایک دشوار کام بن گیا تھا۔

2013  میں نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنی پہلی کابینہ میں پرویز رشید کو وزیر اطلاعات مقرر کیا۔ تب تک میڈیا مزید طاقتورنظر آنے لگا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب طاقتور ادارے اورمیڈیا کے اختلافات اپنے انتہاؤں کی طرف بڑھنے لگے۔ حامد میر پر حملے کے بعد اس کشمکش میں شدت آ گئی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مختلف میڈیا ھاوسز کے درمیان اختلافات بڑہ گئے جن میں سے کچھ نوازشریف اور تو کچھ اسٹیبلشمینٹ کی سپورٹ میں کھل کر سامنے آگئے۔

اسی دوران 2014 میں عمران خان کا پہلا دھرنا ہوا۔ تب میڈیا نےاسے بھرپور کوریج دی۔ جس کی وجہ سےعمران خان میڈیا سے خاصے خوش ہوئے اوراقتدار میں آکر میڈیا کو مزید آزاد کرنے کے وعدے کئے۔ اے پی ایس واقعے کےبعد میڈیا نے اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ اعتماد کو بحال کرنےکےلئے جنرل راحیل شریف کے اعلان کردہ آپریشن ضرب عضب کو قومی سلامتی کے پیرائےمیں بھرپور مدد کی۔ مگر پھر ڈان لیکس کا واقعہ پیش آ گیا، جس کے نتیجے میں نواز سرکار اور اسٹیبلشمینٹ کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔اور بالآخر مسلم لیگ (ن) کو اپنا وزیر اطلاعات قربان کرنا پڑا۔ دوسری جانب میڈیا کے چند آوٹ لیٹس اور طاقتور قوتوں کے مابین بھی ایک نئی کھینچا تانی نے جنم لیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی قائم ہے۔ دو هزاراٹھارہ میں عام انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی سرکار وجود میں آئی تو فواد چودھری کو وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا۔جس نے میڈیا کو ملنے والے اشتہارات کے حجم اور قیمت میں کمی کر دی اوران کے حکومت پر انحصار کو ان کی غلط منصوبہ بندی قرار دیا۔ اصل میں یہ سب مربوط منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔ نتیجہ میں میڈیا مالکان نے ہتھیار ڈال دیئے اور خود ساختہ سیزفائرکا اعلان کیا لیکن عمران حکومت نے ان کی معافی کو قبول نہیں کیا، جس کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہو گئے۔ گذشتہ دو سال کے دوران عمران سرکار کی خراب حکمرانی نے میڈیا میں موجود ان کے ناقدین کو ان پر تنقید کا بھرپور موقع دیا اور یوں عمران سرکار کے میڈیا کے ساتھ تعلقات مزید ابتری کے طرف بڑھ گئے۔

اس دوران فواد چوہدری اور اب فردوس عاشق اعوان اپنی کرسی کھو بیٹھے۔ اصل میں میڈیا مس مینیجمنٹ کی وجہ یہ دونوں وزرا نہیں بلکہ عمران سرکار کی میڈیا سے متعلق پالیسی ہے۔ جس کے تحت متواتر میڈیا کو دبا کر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم اب شبلی فراز اور سابق ڈی جی ایس پی آر عاصم باجوہ کی تقرری کے بعد صورتحال تبدیل ہونے کے کچھ امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ غالباً دونوں افراد کی تقرری کا اصل مقصد بھی میڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتری کی طرف لانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں کابینہ کے اجلاس میں اس بات کے واضح اشارے بھی ملے،جب حکومت نے میڈیا کو بقایاجات کی ادائیگی کرنے اور صحافی تنظیموں کو بے روزگار صحافیوں کی امداد کرنے کے غرض سے امداد کا اعلان کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران سرکار اب میڈیا کے ساتھ مفاہمت کی سنجیدہ کوشش کرنے جارہی ہے اور نئے عہدیدار اس کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے بھی کورونا ایمرجنسی عمران حکومت کے کام آ گئی ہے، ورنہ قومی حکومت کی تشکیل پی ٹی آئی کے تجربے کو ڈبے میں بند کرنے ہی والی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے عمران سرکار کورونا کے معاملے پر سست روی کا شکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments