کرونا کی وبا اور ماحولیاتی تبدیلیاں


کرونا سے پیدا شدہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا پہلا احساس تو خلا سے زمینی تصاویر میں نظر آنا شروع ہوا اور جیسے جیسے بیماری اور لاک ڈاؤن بڑھتا گیا ویسے ہی آسمان کی نیلاہٹ میں اضافہ ہوتا گیا، انسان نے پھیپھڑوں میں اس کو آلودگی سے پاک اوکسیجن کی صورت محسوس کیا، آنکھوں نے اپنے اطراف تیزی سے بڑھتے سبزے اور کانوں نے پرندوں کی آسودگی دیتی چہچہاہٹ اور انسان کی پیدا کردہ آوازوں کی خاموشی کو محسوس کیا۔

ایک طرف ووہان سے تیزی سے پھیلتی بیماری اور اس کے نتیجے میں ہزاروں انسانوں کی موت نے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا ہے تو وہیں زمین اور اس پر رہنے والی باقی مخلوق نے، لگتا ہے ذرا سکھ کا سانس لیا ہے۔ جیسے جیسے موٹر ویز اور سڑکیں گاڑیوں سے خالی ہونے لگیں اور فیکٹریاں بند ہونے لگیں، ویسے ویسے ایک ایک کر کے شہروں اور صنعتی علاقوں پر چھائی آلودگی کی بھوری چھتری بھی غائب ہونے لگی۔ پہلے چین پھر اٹلی، برطانیہ، جرمنی اور درجنوں دوسرے ملکوں میں کاربن ڈائاکسائڈ اور نائڑوجن آکسائڈ کی فضا میں مقدار 40 فیصد تک کم ہو چکی ہے اور ہوا کی کوالٹی میں بہتری سے دمہ، پھیپھڑوں اور دل کو بیماریوں پر اچھے اثرات متوقع ہیں۔ جنگلی حیات میں بڑھوتری کے آثار ہیں۔

لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے اور وہ بھی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا جہاں جنگلی نباتات اور حیوانات پہلے ہی بہت کم ہے، اور اس وقتی کیفیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ لیکن دوسری طرف، اس غیر مساوی دنیا میں یعنی جنوبی نصف کرہ میں جہاں غربت ہے، کیفیت بالکل مختلف ہے۔ ان ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بڑھنے والی غربت سے جنگلی حیات کو لاحق خطرات میں آضافہ ہو گیا ہے۔

ماہرین کے نزدیک موجودہ ماحولیاتی تبدیلی انسانوں کو ایک ایسی دنیا کی تصویر دکھا رہی ہے جس میں تیل اور کوئلے کا استعمال نہ ہوتا کم سے کم ہو۔ لیکن یہ امید، کہ انسانیت اس ڈراونے خواب کے بعد ایک صاف اور صحتمند ماحول میں آنکھ کھولے گی، اس کا انحصار کرونا وائرس کے وقتی اثرات سے زیادہ ان طویل مدت سیاسی فیصلوں پر ہو گا جو اس کے بعد کے جائیں گے۔

کئی دہائیوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی صنعتی سرگرمیوں کے بعد زمین پر انسانی اثرات میں ایک دم کمی آئی ہے۔ مارچ 2020 میں پچھلے سال اس مہینے کے مقابلے میں فضائی ٹریفک تقریباً نصف رہ گیا، برطانیہ میں روڈ ٹریفک میں تقریباً 70 فیصد کمی آئی اور ایسا ہی دوسرے ممالک میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انسانی سرگرمیوں میں کمی سے کرہ ارض نے سکون کا سانس لیا ہے اور ماہرین ارتعاش اراضی کے مطابق زمینی ارتعاش میں بھی کمی آئی ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لاک ڈاؤن نے تیل کی صنعت کا تیل نکال دیا ہے اور یہ ایک لحاظ سے قدرت نے انسان کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ایک صاف اور آلودگی کے بغیر دنیا میں رہ سکتا ہے اگر وہ صحیح فیصلہ کر سکے لیکن اس خواب کو روکنے کے لیے کوششیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ ہمیں نیومی کلین (Naomi Klein) کی ”“ doctrine shockکو ذہن میں رکھنا ہو گا جس کے مطابق کس طرح ایک طاقتور عالمی طبقہ قومی اور بین الاقوامی بحرانوں کے دوران انسانی حقوق اور ماحولیات کے خلاف اقتصادی اور قانونی فیصلے مسلط کر دیتا ہے، اس ضمن میں آپ کو سری لنکا اور انڈونیشا میں سونامی کے بعد ساحلی علاقوں میں آنے والی تبدیلیوں کو یاد رکھنا ہو گا۔

آج امریکہ میں سبسڈی کے نام پر حالیہ دنوں میں کار کی صنعت میں مروجہ تیل کے سٹینڈرڈ کو کم کر دیا گیا ہے، ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی جانب سے قوانین پر نگرانی کم کر دی گی ہے اور تین ریاستوں میں تو معدنی ایندھن یعنی تیل کے خلاف احتجاج غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔ یورپ اور دوسرے صنعتی ممالک میں ایسے ہی اقدامات کے لیے دباؤ بڑھنا شروع ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ، سائنسدان اور ماحولیاتی کارکن ایک عوامی مباحثے پر زور دے رہے ہیں جس میں بحالی کی کوششوں کے دوران توجہ ایسے انفراسٹرکچر پر ہو جس میں آلودگی سے پاک توانائی استعمال ہو۔ یہ ایک بڑی سیاسی لڑائی ہے جو ہم نے آنے والی نسلوں کے لیے لڑنی ہی ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ زمین پر نسل انسانی ایک صحتمند ماحول میں رہ سکے۔

ایک اور اہم بات عوامی تاثر کی بھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آنے والے دنوں، سالوں میں انسانوں میں 75 فیصد انفیکشنز جانوروں سے منتقل ہوں گی اور آسان ہوائی اور بحری سفر کی بدولت تیزی سے دنیا میں پھیلیں گی۔ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے جنگلی جانورں کے لیے میسر جگہ سکڑ رہی ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہماری قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے۔ کرونا کے ذریعے قدرت نے ہمیں ایک وارننگ دی ہے۔ اب یہ ہم انسانوں پر ہے کہ وہ کوئی لائح عمل بناتے ہیں۔ ہمارے پاس موجود چوائس میں یا تو شترمرغ کی طرح آنکھیں بند کر لیں اور سر ریت میں چھپا لیں یا اس چیلنج کو قبول کر لیں اور اپنی عادات کو بدل لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments