احساس پروگرام میں عوامی فراڈ


احساس پروگرام کے تحت ملک بھر میں اربوں روپے غربا میں تقسیم کیے جا رہے ہیں جو لامحالہ ایک اچھی کاوش تھی تا کہ ان لوگوں کا چولھا جلتا رہے جو کرونا کے باعث بے روزگار ہو کر گھروں میں بیٹھ رہے۔

اپنی تمام تر کجیوں کوتاہیوں کے باوجود بہرحال اسے ایک اچھی کاوش قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ گرتی ہوئی یا ساکت معیشت کے لیے سردست یہ ایک انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ گو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شوبازیاں بھی اپنی جگہ حقیقت ہیں۔ مگر اس سے بھی مفر ممکن نہیں کہ اگر یہ رقم کما حقہ مستحقین تک پہنچ جائے تو بہرحال ان کے لیے وقتی ریلیف کا زبردست سامان کیا جا سکتا تھا، لیکن اگر اس میں مزید شفافیت پیدا کی جاتی تو بہت سے وہ لوگ فیض یاب ہوتے جن کا چولھا بُجھنے کا خطرہ ہے۔

جو ایس اوپی بناے گئے اس سے شفافیت کا معیار بُری طرح متاثر ہوا۔ میں بھی نہ سوال اٹھاتا اگر آنکھوں سے دیکھ نہ لیتا۔

بہتر ہوتا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پہ رقم بنک اکاونٹس میں آجاتی۔ مگر اس میں یہ خدشہ تھا کہ تصاویر نہ بننے کے سبب کسی کو پتہ نہ چلتا کہ وزیراعظم پاکستان عوام کے لیے کتنا درد رکھتے ہیں۔ اب کم از کم تصاویر بن جاتی ہیں۔ جو لا محالہ شوبازیوں کے لیے ضروری ہیں۔

ایک سو چوالیس بلین روپے کا بجٹ اس کام کے لیے منظور کیا گیا۔

جو ایس او پیز بناے گئے ان میں ایسی قباحتیں تھیں کہ وہ لوگ بھی حقدار قرار پائے جو اچھے خاصے کھاتے پیتے زمیندار، بڑے دکاندار تھے۔ یعنی جنھوں نے کبھی ٹیکس نہیں دیا یا اکاونٹ اپنے نام نہیں رکھا یا جن کے اکاونٹ میں فکس اماونٹ نہیں آتی۔

چونکہ میں احساس پروگرام سنٹر کو سپروائز کر رہا ہوں ایسے بہت سے کیسز میرے سامنے آئے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ دوستوں سے رابطہ کیا ادھر بھی یہی حال۔ فیس بُک پہ باقاعدہ ایسی ویڈیوز اپلوڈ کی گئیں جن میں با اثر افراد کو بارہ ہزار لیتے دکھایا گیا تھا۔

منگل خان میرا جاننے والا ہے جس کی بازار میں کپڑے کی بڑی دکان ہے۔ مجھے دیکھ کے منہ چھپانے لگا۔

یہ ماہانہ لاکھوں کمانے والا شخص ہے۔ مگر چونکہ تصدیق شدہ ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے سسٹم میں موجود نقص سے ناجائز فائدہ اٹھا کے حقدار ٹھہرا۔ اور کسی غریب حقدار کی رقم لے اڑا۔

منگل خان کے بعد ایک با اثر زمیندار پہ نظر پڑی جو سولہ ایکڑ اراضی کا مالک ہے۔ ملازمین نے حیران دیکھا تو کہنے لگے سر پریشانی کی کوئی بات نہیں ابھی کل ہی فلاں سویٹس انڈ بیکرز والا، فلاں کلاتھ ہاؤس والا اور فلاں فلاں رقم لے کر گئے ہیں۔

یہ قوم کے اخلاقی دیوالیہ پن کا بہت بڑا ٹیسٹ کیس ہے جس میں بدقسمتی سے ہم بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔

طارق جمیل صاحب کی اس بات میں تو وزن ہے کہ من حیث القوم یا بحثیت مجموعی قوم اخلاق دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ ضمیر گہری نیند سو چکا۔ اپنے تھوڑے سے منافع یا لالچ کی خاطر جو قوم اپنے بچوں کو زہریلا دودھ پلاتی ہو، اپنے ہی لوگوں کو مردہ جانور کھلائے جاتے ہوں، زائد المیعاد پاوڈر سے دددھ تیار کیا جاتا ہو۔ وہاں پھر بھی مجھے موہوم سی امید تھی کہ اس آزمائش کی گھڑی میں یقیناً قوم نے ضمیر کی خلش کو محسوس کیا ہو گا۔ موت تو ہر کسی کو آنی ہے۔ مگر کرونا وہ خطرناک آزمائش ہے جس کا مقابلہ امریکہ اور یورپ کح ترقی یافتہ ممالک نہیں کر پا رہے۔ تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔

مجھے لگا کہ ہم اللہ سے ڈر گئے ہوں گے۔

ہم نے رشوت لینا چھوڑ دی ہو گی۔ حرام کمانا اور کھانا چھوڑ دیا ہو گا۔ کسی نے اگر کسی غریب کا ناجائز حق دبا رکھا ہے تو وہ واگزار ہو گیا ہو گا۔ کیونکہ ایسی آفات کے پیچھے ایک چھپا ہوا مقصد قوموں کی مجموعی اصلاح ہوتا ہے۔

تاریخ میں ایسی بہت سی اقوام کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے کسی ٹریجڈی کے بعد اپنا قبلہ درست کیا اور آج وہ دنیا کی حکمران ہیں۔

میں تب سے اب تک ایک ناخوشگوار حیرت کا شکار ہوں کہ ہم نے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ یہ منگل خان یا اکرم محض دو نام نہیں ہیں بلکہ قوم کی اجتماعی پسماندگی کی عکاسی کرتے دو سیمپل ہیں۔

اس مصیبت کی گھڑی میں بھی ہم اپنا قبلہ درست نہیں کر رہے۔ فراڈ، ظلم، دھوکا دہی اور غبن سے باز نہیں آ رہے۔ ابھی کرونا کی بابت کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ کہ کس کس کی باری آنے والی ہے۔

حاجیوں نمازیوں کی تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر آنے والی قوم بے ایمانی اور بددیانتی کے لحاظ سے 164 ویں نمبر پہ ہے۔ یعنی 163 اقوام ہہم سے زیادہ ایماندار ہیں۔ یہ فرق ہے کہ ہم نے شاید عبادات پر تو ہمیشہ زور دیا ہے۔ ہمارے علما نے جنت کا حصول تسلی بخش عبادات سے مشروط کر دیا۔ شاذ و نادر ہی کبھی کسی کو معاملات کے حوالے سے بات کرتے سُنا۔ تعلیمی ادارے جو کہ تربیتی ادارے بھی ہوتے ہیں وہاں بھی تربیت کے حوالے سے فقدان پایا جاتا ہے۔ اور آج نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی بے ایمانی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

احساس پروگرام میں ملنے والا پیسہ یقیناً زکواة اور خیرات کا پیسہ ہے۔ اور ہر ذی شعور یہ جانتا ہے کہ وہ زکواة کا حقدار ہے یا نہیں۔ جو قوم عین آزمائش کی گھڑی میں بھی محض بارہ ہزار کی معمولی رقم کے لیے اپنا ایمان نہ بچا پاے اس سے دُنیا کی سیادت و قیادت کی توقع کی جا رہی ہے۔

اس سوچ پہ ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا پیسہ سترہ سے لے کے بیس گریڈ کے افسران خرد برد کرتے رہے۔ جو کہ تنخواہوں کی مد میں ہر ماہ اس مریل قوم سے لاکھوں اینٹھتے ہیں۔ صحت انصاف کارڈ بننے کی نوبت آئی تو سیاستدانوں نے اپنے اور اپنے ڈیرہ داروں کے بنوا لیے۔ اور غریب محروم رہ گئے۔ اب بھی یہی ہوا۔

شاید اقبال نے ہمارے لیے ہی کہا تھا
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

شاہد رضوان
Latest posts by شاہد رضوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments