زندگی اور بے یقینی!


سات آٹھ سال بعد لاک ڈاؤن کے طفیل فرصت ملی، کتابیں زیادہ میسر نہ تھیں تو سوچا فلم بینی پھر سے شروع کرتے ہیں نظریں آرٹ فلموں کی طرف گئیں تو سب سے پہلے عرفان خان کی فلم ”Life of a Pi“ سامنے آئی جس میں دکھایا گیا ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں انسان کو امید قائم اور کوشش جاری رکھنی چاہیے۔

عام طور پر ہم جب فلمی اداکاروں کی طرف دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے ان کے ظاہری شکل صورت کی طرف جاتے ہیں لیکن عرفان خان میں ایسا کچھ بھی نہ تھا انہوں نے اپنی محنت اور جادوئی اداکاری سے انڈسٹری میں اپنی جگہ بنائی اور لنچ بکس، انگریزی میڈیم، ہندی میڈیم، تلوار، مداری، بلیک میل، حاصل جیسی فلموں میں اپنی اداکاری سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لایا۔

ایک فیوڈل ٹائپ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے، باپ شکار پر اپنے بچے عرفان کو بھی ساتھ لے جاتا لیکن عرفان کہتا جب اس کا باپ کسی پرندے کا شکار کرلیتا تو میں اپنے ذہن میں کہانیاں بناتا رہتا کہ آج اس جانور کے  ماں باپ بہن بھائی کیا کریں گے ان پر کیا گزرے گی۔

ان کے نام کے ساتھ صاحب زادہ عرفان خان تھا پہلے انہوں نے صاحب زادہ کے الفاظ ختم کیے بعد میں خان بھی ہٹا دیا کہتے تھا، میں صرف عرفان ہوں۔ ان کا سوال تھا کہ ذات پات، قبیلہ، مذہب نام کے ساتھ کیوں پوچھا جاتا ہے۔ انسان کی پہچان صرف اس کی ذات کے حوالے سے ہونی چاہیے۔

اپنے آخری خط میں زندگی کی بے یقینی پر انہوں نے لکھا کہ یہ میرا کھیل نہیں تھا بھائی، میں تو ایک فل سپیڈ والی بلٹ ٹرین میں سوار تھا، میرے تو خواب تھے، کچھ کام تھے جو کرنے تھے، کچھ خواہشیں تھیں، کچھ ٹارگٹ تھے، آرزوئیں تھیں، اور میں بالکل ان کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔ اب کیا ہوتا ہے کہ اچانک پیچھے سے کوئی آ کر میرے کندھا تھپتھپاتا ہے، میں جو مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ ٹکٹ چیکر ہے ؛ ”تمہارا سٹاپ آنے والا ہے بابو، چلو اب نیچے اترو“ ۔ میں ایک دم پریشان ہو جاتا ہوں ؛ ”نہیں نہیں بھائی میاں، میری منزل ابھی دور ہے یار“ ۔ اور پھر ٹکٹ چیکر مجھے سمجھانے والے انداز میں کہتا ہے ؛ ”نہ، یہی ہے، سٹاپ تو بس یہی ہے، ہو جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔

بے یقینی کی ہر بڑی لہر کے آگے ہم تو بس اپنے چھوٹے سے وجود کو سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ ہرا سمندر گوپی چندر، بول میری مچھلی، کتنا پانی، اتنا پانی! تو بس پانی، بے رحم پانی، وقت کی موجوں کے تھپیڑوں میں تیرتی نامعلوم ہستی اور پانی!

یہ سب کچھ کوئی آدمی تبھی لکھ سکتا ہے جب وہ واقعی ایسی کیفیت سے گزر رہا ہو۔ ہماری ساری شاعری ایسی واہی تباہی سے بھری پڑی ہے کہ آج مرے اور کل دوسرا دن۔ لیکن آج کا کیا ہو گا؟ ماضی گزر گیا، آنے والا کل ہمیں پتہ نہیں کیسا ہو گا۔ تو جو آج ہے، بلکہ جس کے پاس بھرپور آج ہے، جو ہاتھ پاؤں سمیت بھرپور سلامت ہے وہ کیوں مرتا ہے کہ کل کیا ہو گا؟ سمندر کا بہاؤ بدلنے کی بجائے اس پہ جھولے جھولتے ہوئے انجوائے کیوں نہیں کرتے یار؟ میں بھی نہیں کرتا لیکن کرنے کا سوچ تو سکتا ہوں؟ اچھا سوچو، کبھی نہ کبھی اچھا کر بھی لو گے۔

چند ہی لوگ ایسے ہیں جن کا غم برصغیر اکٹھا مناتا ہے۔
محبت کا کوئی دھرم نہیں ہوتا
لیکن وہ خود اپنے اندر ایک دھرم ہے۔

اسد علی قریشی
Latest posts by اسد علی قریشی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments