خربوزہ، سٹیفن کنگ اور شوگر


قدرت کی صناعی کے کیا کہنے! فاطر ہستی نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔ خربوزہ اسی یقین سے مغلوب ہو کر خریدا جاتا ہے۔ کاٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ قدرت نے بعض چیزیں بندوں کو پرکھنے کے لیے بھی بنائی ہیں۔

رنگ و بو کے اعتبار سے خربوزے کا شمار فطری سامانِ زیبائش میں ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ دھرتی کو سجانا مقصود تھا۔ ناہنجار انسان اس پر دانت آزماتا ہے اور بجا طور پر منہ کی کھاتا ہے۔ زوالوجی میں اس کا متبادل مور ہے ؛ رنگین اور خوشنما لیکن نہ کسی کام کا نہ کاج کا۔ علامتی طور پر یہ سیاست کی عکاسی کرتا ہے۔ رنگ ایسا خوشنما کہ نظر پھسل پھسل جائے۔ خوشبو ایسی دلفریب کہ صندل اور زعفران اس کے سامنے پانی بھریں۔ لیکن مٹھاس بالکل پاکستانی سیاست کی کارکردگی جیسی۔

سیاست سے یاد آیا کہ چند دن پہلے پنجاب کے بڑے صاحب ناراض ہوئے کہ ابھی کل سڑک بنائی تھی، آج ٹوٹ کیسے گئی؟ کوئی عرض کرتا کہ جناب سڑک ہے، کوئی چینی کا کارخانہ تو نہیں کہ ہر سال اربوں کا منافع کھرا کر لیا جائے۔ سڑک سے تو ایک مرتبہ ہی حلاوت کشید کی جانی تھی، سوکرلی۔ اب اگر اس جہانِ فانی میں سڑک ٹوٹ گئی ہے تو کیا قیامت آ گئی۔ پھر بن جائے گی۔

شنید ہے کہ کبھی خربوزے میں مٹھاس ہوتی تھی۔ ہوتی ہو گی پر اب معدوم ہوچکی۔ لیکن اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ وطنِ عزیز میں بھی شوگر کی کسی فائل کا غلغلہ تھا، اب ڈھونڈے نہیں ملتی۔ اسے رہنے دیں۔ موسم گرما کے اس مبینہ پھل کا ذکر ہی بہتر ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں شوگر بھی صنعت نہیں، پھل ہی ہے۔ لیکن یہ میوہ ہما شما کو نہیں، کسی سعادت مند کو بزور بازو نصیب ہوتا ہے۔

برِ صغیر میں میٹھے سے وابستہ مسائل شروع سے رہے ہیں۔ لیکن پرانے بزرگ قناعت پسند تھے۔ پورا کارخانہ نہیں مانگتے تھے۔ شکر کی کمی کو لب و رخسار سے لے کر سخن و لحن سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ امیر خسرو نے محبوب کی مسکراہٹ پر کہا تھا، ”شکر ریزی اگر در خندہ باشی“ (اگر تو مسکرائے تو شکر برسنے لگے ) ۔ یہ ترکیب آسان ہے، میٹھا خربوزہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ جہاں تک قیمت کا تعلق ہے تو رمضان سے پہلے پچاس یا ساٹھ روپے کلو دستیاب تھا۔ لیکن اُدھر مفتی صاحب کی پاکیزہ نگاہ نے نئے چاند کے نازک سے لب کا بوسہ لیا، ادھر خربوزے کے مالک نے اپنے مال کی طرح رنگ بدلا۔ اگلے روز قیمت ایک سو بیس روپے فی کلو تھی۔

ہمارے دور کے عظیم ناول نگار سٹیفن کنگ کا ایک جملہ ہماری سیاست پر خربوزے سے بھی زیادہ صادر آتا ہے : ”شوگر تمام مسائل حل کرلیتی ہے“ ۔ سٹیفن کنگ نے اب تک 70 ناول لکھے ہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ اتنا زیادہ اور اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں تو جواب دیا کہ میں ایک وقت میں صرف ایک لفظ لکھتا ہوں۔ درست، یہ شوگر والی بات بہت سوچ کر ہی لکھی گئی ہوگی۔ ہماری چالیس سالہ صنعتی اور سیاسی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ حکمرانوں کو جب بھی سیاسی مسائل کا سامنا ہوا، شوگر میں ہی حل ملا۔

یہ درست ہے کہ زندہ رہنے کے لیے ہمیں بہت کم مصنوعی مٹھاس کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ جہاں فانی ہے، ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ پر کوئی بہانہ بھی ہونا چاہیے۔ چنانچہ شکر کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

گاہے گاہے سیاست میں پیدا ہونے والے مسائل کو نہایت عمدگی سے شیر و شکر کر لیا جاتا ہے۔ تاہم یہ ایک دو دھاری ہتھیار ہے۔ لیکن پھر ہمارے ہاں نظام تعلیم سے لے کر صنعت و حرفت تک، ہر چیز دو دھاری ہتھیار ہی تو ہے۔ ہماری مجاہدانہ فطرت وحدت الوجود کی قائل نہیں۔ یہ ڈیم لے کر سڑک اور امدادی سامان سے لے کر کھیل کود تک، ہر چیز کی تزویراتی گہرائی ناپ لیتی ہے۔ ستم ہے کہ بعض شادیاں بھی محض شادیاں نہیں ہوتیں۔ موجودہ حکومت شروع میں اناڑی تھی۔ حکمرانی کا تجربہ نہیں تھا۔ ہر روز کوئی نیا کٹا کھول لیتی تھی۔ اب ماشا اللہ تجربہ ہو چکا۔ اب ہر روز دو کٹے کھولتی ہے۔

ہمارے سیاسی خاندان، ”جن میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں“ ۔ ہشیار وہ جنہوں نے لگے ہاتھوں شوگر ملیں لگا لیں۔ بہت اچھا کیا، کسی نہ کسی نے تو لگانی تھیں، مل کر بھائی بندوں نے لگا لیں۔ بعض نے تو اس صفائی سے کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلنے دیا۔ لیکن بات بگڑ جائے تو پھر ”ٹٹدی نوں جگ جاندا“ ۔

بے نظیر بھٹو کے خلاف شریفوں کو کھڑا کیا گیا۔ کارخانوں کا شمار بڑھنے لگا۔ سندھ میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ ذوالفقار مرزا کی کہانی اُنہی کی زبانی سب نے سنی تھی۔ موجودہ حکومت کے لیے جہاں کاشت کاری، شجرکاری، پیوند کاری اور کہیں کہیں کاروکاری ہوئی، وہیں جہازاُڑے، کہیں بے پر کی اُڑی، تب کہیں جا کراقتدار کا ہما اُترا۔

لیکن تاثر ہے کہ اس کاروبار میں بعض کو بعض پر فضلیت دی جاتی ہے۔ کسی کا تمام کام ہوجاتا ہے تو کسی کا کام تمام کرنا پڑتا ہے۔ چھانٹی ناگزیر ہوتی ہے۔ جب اشرافیہ دیکھتی ہے کہ پپو پاس ہوگیا ہے تو ہزماسٹرز وائس ابھرتی ہے کہ چلو اب کچھ ”میٹھا“ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments