محترمہ صدیقہ انور کی یادیں


تعلق، ایک چھوٹا سا لفظ سے لیکن کبھی کبھی یہ اتنا جامع ہو جاتا ہے کہ اس کی تشریح کئی صفحات کالے کرنے سے بھی نہیں ممکن نہیں ہوتی۔ آج کی تحریر بھی ایک ایسے ہی تعلق پر مبنی ہے۔ دو روز قبل معروف ادیب و شاعر جناب انور مسعود کی اہلیہ محترمہ صدیقہ انور کا انتقال ہوا۔ ان کے اچانک انتقال پر ہر طرف نہ صرف افسوس کا اظہار کیا گیا، بلکہ دعاؤں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ وہ کسی تعارف کی محتاج نہ تھیں۔ ملکی اور بین الاقوامی طور پر ہر کوئی ان سے اور ان کے تمام اہلِ خانہ سے واقف تھا۔ اس عرصے میں، ان کی بے شمار خصوصیات پر بھی بات کی جاتی رہی۔ شخصی خصوصیات، علم و ادب، سماجی، معاشرتی، بہت سے حوالوں سے وہ ہمیشہ ممتاز رہیں گی۔ نیکی کا جذبہ بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قرآن اور اسلام سے محبت، آخری وقت تک ان کے ساتھ رہی۔

میرے نزدیک ان کی بہت سی خوبیوں میں سے منفرد یہ امر ہے کہ وہ ان افراد میں سے تھیں، جن سے تعلق ایک بار قائم ہونے کے بعد ختم نہیں ہو سکتا تھا۔ اس خاص بات کو جاننے کا عرصہ گزشتہ تقریباً 35 برس پر محیط ہے۔ مجھے فارسی کا مضمون ان سے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دیکھا جائے تو یہ کوئی خاص بات نہیں۔ فارسی اور وہ بھی آپشنل، صرف اس لیے پڑھی جاتی تھی کہ نمبر زیادہ آسکیں۔ تھوڑی سی شد بد رکھنے والا شاگرد بھی 80 نمبر تو آسانی سے لے سکتا ہے، کیونکہ وہ لفظی ترجمے پر مشتمل ہوتے ہیں۔

سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی مجبوریاں 35 سال پہلے بھی یہی تھیں، جو آج ہیں۔ بہت سے سیکشن، بہت سے طلبہ و طالبات، کسی ایک استاد کے حوالے کر دیے جاتے ہیں، اور اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بوتل سے کوئی جن نکال کر انہیں عالم، فاضل بنا دے۔ سو ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دو یا تین سیکشن، فارسی آپشنل اور مسز صدیقہ انور۔

پڑھائی کی کوشش کرتے کرتے معلوم ہوا کہ وہ ہمیں محبت کرنا سکھا رہی ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں ان کے استاد ہونے کا خوف بھول بھال کر، ہمارا وتیرہ یہ ہوا کہ پکنک پہ جاتے ہوئے، تمام بسوں کو چھوڑ کر صرف اس بس میں بیٹھنا ہے، جہاں میڈم صدیقہ کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اب کوئی پوچھے تو کیوں، تو شاید احمقانہ بات لگے کہ وہ تمام بچیوں میں دورانِ سفر ٹافیاں تقسیم کیا کرتی تھیں۔ ان ٹافیوں کی مٹھاس ان کے لہجے، مزاج، رویے میں ایسی تھی کہ سفر کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔

کالج کے زمانے میں ہی تقاریر، بیت بازی، یا کسی مقابلے کے لیے لاہور جانے والی تمام طالبات کی پہلی ترجیح میڈم صدیقہ ہوتیں۔ ان کے ساتھ سفر کا مزہ تو خیر ہوتا، لیکن تمام وقت طالبات کی تیاری پر ان کی خاص توجہ رہتی اور طالبات بے تکلفانہ انداز میں اپنی ہچکچاہٹ کو دور کر سکتیں۔ اس دور میں ایک استاد کے طور پر پر ان سے جو کچھ سیکھا، زندگی میں بہت کام آیا۔ اسی دور میں اپنی ساتھی طالبات سے معلوم ہوتا رہتا کہ وہ طالبات کی مدد کرنے میں سب سے آگے رہتی ہیں۔ اپنی طالبات کی کردار سازی میں ان کا ایک خاص حصہ رہا ہے، جس کو بھلایا نہیں جا سکتا۔

عام طور پر اساتذہ اور شاگردوں کاتعلق، تعلیمی دور تک ہی محدود رہتا ہے۔ لیکن میری خوش بختی جب اردو ادب کے میدان میں لے آئی تو ایک بار پھر کبھی کبھار کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اگرچہ طالب علمی کا دور ان کی یادداشت سے محو ہو گیا تھا۔ لیکن یہ جان لینے کے بعد، کہ کوئی ان کا شاگرد رہ چکا ہے، وہ سراپا محبت ہو جایا کرتی تھیں۔ (عمار مسعود، کبھی دوستانہ شکوہ بھی کیا کرتے کہ اپنے بچوں سے زیادہ اپنے شاگردوں سے محبت کرتی ہیں)

نئی نسل سے مخاطب ہونے کا ایک خاص پر وقار انداز، نجی محافل میں بے تکلفی، گھریلو بے فکری کا انداز، ادب کا ذوق، معاشرتی پہلوؤں کی آگہی۔ کیا کیا نہیں تھا، ان کے مزاج میں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن سے محبت اور اپنے گھر میں قرآن کلاس، کو ایک جنونی محبت کا درجہ دیے رکھا۔ جس نے ان کے چہرے کو ایک دل کشی اور نور کی وہ مستقل کیفیت بخشی، جس کے سبھی مداح ہیں۔ شاید محبت کے کسی خاص خمیر سے ان کی مٹی کو گوندھا گیا تھا۔ اس عمر میں بھی اپنے مہمانوں کے لیے لذت بھرے کھانے پکانا انہیں خوش کرتا تھا۔ یہ ہر کسی کے بس کی بات کہاں۔

شاید ایسے ہی اساتذہ کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ روحانی والدین ہوتے ہیں۔ آج والدہ کے جانے پر جہاں ان کے بچے سوگوار ہیں، وہاں ہزاروں طالبات کے گھروں میں بھی ایک بزرگ کے سایہءِ شفقت سے محروم ہونے کا احساس موجود ہے۔ دعاؤں کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ وہ خود اپنے ساتھ ایمان اور نیکی کی ایسی دولت لے کر گئی ہیں، کہ کسی کی محتاج نہ ہوں گی۔ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا نا کہ کئی تعلق بہت خاص ہوتے ہیں۔ مسز صدیقہ انور سے بھی ہزاروں افراد کا بہت خاص تعلق تھا۔ شاید اس میں سے بہت کم کو زباں ملی ہو۔ لیکن و ہ بہت سی زندگیوں کے لیے روشن مینارہ رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔

اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments