ثریا کا سراغ


”ثریا“ ایک فلکیاتی اصطلاح ہے جو ہماری زبان میں کئی معنوں میں محاورتاً استعمال ہوتی ہے، اور عالمی ادب اور فنون لطیفہ میں بھی بکثرت موضوع بنتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں ”ثریا“ سے دلچسپی اچانک اس لئے بڑھ گئی ہے کہ آج کل ”ثریا ستارہ“ اور کورونا وائرس کے ربط کا بڑا چرچا ہونے لگا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ثریا کون سا اور کیسا ستارہ ہے۔ دلچسپی کی وجہ کچھ بھی ہو، مگر اس میں شک نہیں کہ ثریا آسمان پر ایک بہت دلکش، قابل مشاہدہ، اور قابل توجہ چیز ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں کچھ معلومات یہاں پیش ہیں۔

سب سے پہلے دو غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ ”ثریا“ نام کا کوئی ستارہ آسمان پر نہیں، بلکہ یہ چند ستاروں کا مجموعی نام ہے۔ مزید یہ کہ ثریا کے ”نمودار ہونے“ کی ترکیب سے یہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے کہ ثریا کا نظر آنا کوئی غیر معمولی واقعہ ہے۔ اگر کوئی دمدار تارا تاریخ میں پہلی بار یا بہت لمبے عرصے کے بعد دوبارہ دکھائی دے تو اس خبر کے لئے ”نمودار ہونے“ کا استعمال بجا ہوگا، مگر ثریا پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہر سال تقریباً نو مہینے تک ہر رات نظر آتا ہے۔ (فلکیات میں ثریا مذکر صیغے میں استعمال ہوتا ہے۔ )

سب ستارے سورج کی طرح مشرق سے مغرب کی سمت میں آسمان کا چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ البتہ اس چکر میں ستاروں کی رفتار سورج سے ذرا تیز ہے۔ سورج کا ایک چکر 24 گھنٹے میں پورا ہوتا ہے، جب کہ ستاروں کا اس مدت سے چار منٹ کم میں۔ اس لئے کوئی ستارہ آسمان کے کسی مقام پر ایک رات جس وقت نظر آئے، اگلی رات وہ اسی مقام پر اس وقت سے چار منٹ پہلے نظر آئے گا۔ ثریا کے سب ستارے ساتھ ساتھ اسی طرح حرکت کرتے ہیں، اور اس حرکت کی وجہ سے آسمان پر ثریا کی جگہ روزانہ بدلتی جاتی ہے۔

پاکستان کے اکثر مقامات میں ثریا اگست کے آخری دنوں سے نظر آنے لگتا ہے۔ اور رات کے آخری حصے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ نومبر کے وسط میں یہ سورج کے غروب کے وقت مشرق میں نکلتا ہے اور ساری رات آسمان پر رہتا ہے۔ پھر اس کے نظر آنے کی مدت ہر رات کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ مئی کے وسط میں یہ صرف شام کو ذرا سے وقفے کے لئے مغرب میں نظر آتا ہے۔ جون اور جولائی میں یہ آسمان پر سورج کے اتنا قریب ہوتا ہے کہ بالکل نظر نہیں آتا۔

ستاروں کو قدیم زمانے سے ان کی باہمی شکلوں کی بنا پر ”مجموعوں“ میں بانٹ دیا گیا ہے۔ بعض مجموعوں کے اندر کے کچھ ستارے خود ہی نمایاں شکلیں بناتے ہیں، جنھیں ”جمگھٹ“ کہتے ہیں۔ ثریا بھی ایک جمگھٹ ہے جو ”ثور“ نام کے ایک مجموعے کا جزو ہے۔ ثریا میں بہت قریب قریب چھ روشن ستارے ہیں، جن سے کان کے جھمکے جیسی شکل بنتی ہے۔ (چنانچہ ثریا کو ”عقد ثریا“ بھی کہتے ہیں۔ ) ثریا بڑا خوبصورت اور خاصا منفرد جمگھٹ ہے کیونکہ آسمان میں کہیں اور اتنے کم باہمی فاصلے پر اتنے روشن ستارے نہیں دکھائی دیتے۔ اچھی بینائی والے لوگوں کو بعض اوقات ثریا میں ایک اور نسبتاً مدھم ستارہ بھی نظر آجاتا ہے۔ اس لئے بعض مغربی زبانوں میں ثریا کا ایک عوامی نام ”سات بہنیں“ ہے۔ دوربین سے دیکھنے پر ثریا میں سینکڑوں ستارے نظر آتے ہیں۔

فلکیات میں ثریا کوM 45 بھی کہا جاتا ہے۔ اس نام کی اصل یہ ہے کہ ایک فرانسیسی فلکیات داں ”میسیے“ نے اپنی تحقیق سے تعلق رکھنے والے اہم اجرام فلکی کی ایک فہرست بنائی تھی جو اتنی کارآمد ثابت ہوئی کہ اسے فلکیات داں اب تک استعمال کرتے ہیں۔ ”میسیے“ کے پہلے حرف کی مناسبت سے فہرست میں مندرج اجرام کے نام اب M سے شروع کیے جاتے ہیں، اور اس فہرست میں ثریا پینتالیسواں اندراج ہے۔

اسے انگریزی میں
Pleiades
کہتے ہیں۔

عام طور پر کسی مجموعے یا جمگھٹ کے جو مختلف ستارے بظاہر ایک دوسرے کے نزدیک نظر آتے ہیں حققیت میں زمین سے ان کے فاصلے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ بعض اوقات زمین سے ایک کا فاصلہ دوسرے کے فاصلے کا ہزاروں گنا ہوتا ہے۔ لیکن ثریا کی یہ غیر معمولی خصوصیت ہے کہ اس جمگھٹ کے ستارے زمین سے تقریباً ایک ہی فاصلے پر ہیں۔ اس لیے علمائے فلکیات کا خیال ہے کہ ثریا کے ستارے کسی ایک ہی فلکی سحاب (یعنی گیس اور گرد کے ذرات پر مشتمل بادل جیسے جسم) سے بنے ہیں۔

ثریا کے ستاروں کا زمین سے فاصلہ 440 نوری سال ہے۔ نوری سال وقت کا نہیں بلکہ فاصلے کا ناپ ہے۔ یہ اس فاصلے کا نام ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، اور تقریباً 95 کھرب کیلومیٹر کے برابر ہے۔ ظاہر ہے کہ ثریا کے ستاروں کو اس ناقابل تصور دوری پر واقع ہونے کے باوجود اتنا روشن نظر آنے کے لیے سورج سے یقیناً کہیں زیادہ روشن ہونا چاہیے۔ تو واقعی وہ سورج سے ڈھائی ہزار زیادہ روشن ہیں۔ مگر اس جلوہ افروزی کی بھی سزا ہے۔ وہ تیز تیز جل کر چند کروڑ سال میں ختم ہو جائیں گے جب کہ سورج دھیمے دھیمے جلتا ہوا کئی ارب سال زندہ رہے گا۔

ثریا کے ستاروں کے موجودہ فلکیاتی نام زیادہ تر یونانی دیومالا سے آئے ہیں، لیکن دنیا بھر میں اس جمگھٹ اور اس کے ستاروں سے طرح طرح کی کہانیاں وابستہ ہیں۔ کئی مشہور یورپی تصویروں میں میں بھی یہی کردار موضوع بنے ہیں۔ اردو، فارسی اور ہمارے علاقے کی دوسرے زبانوں میں ثریا خوبصورتی کے علاوہ بلندی کی علامت بھی ہے۔ جیسے اقبال کی نظم ”ہمالہ“ کا مصرع ہے ”چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن“ ۔ یا سعدی کا ایک مشہور فارسی شعر ان معنوں میں ہے کہ اگر معمار پہلی ہی اینٹ ٹیڑھی رکھ دے تو پھر دیوار ثریا تک ٹیڑھی پہنچے گی۔

اردو میں ”ثریا جاہ“ ، ”ثریا مرتبت“ وغیرہ القاب سے ممدوح کا درجہ اونچا بتایا جاتا ہے۔ ثریا کی بلندی کا تصور بھی تخیلاتی نہیں بلکہ فلکیاتی ہے۔ زمین کے کسی مقام کے ٹھیک اوپر کے آسمانی نقطے کو اس مقام کا سمت الراس اور آسمان پر اس نقطے سے گزرنے والے شمال سے جنوب کھنچے ہوئے خیالی خط کو اس مقام کا دائرۂ نصف النہار کہتے ہیں۔ جب کوئی ستارہ آسمان پر اپنے روزانہ چکر کے دوران اس دائرے پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ ستارہ اپنی سب سے زیادہ ممکن بلندی پر دکھائی دیتا ہے۔

لیکن اس دائرے پر پہنچ کر بھی ہر ستارہ سمت الراس پر نہیں بلکہ اس کے شمال یا جنوب میں رہتا ہے۔ البتہ ثریا آسمان میں اس طرح واقع ہے کہ ہمارے علاقے میں دائرۂ نصف النہار سے گزرتے وقت یہ سمت الراس کے خاصا قریب ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ وہ آسمانی گنبد کی اندرونی چھت کے تقریباً مرکزی بلند ترین مقام پر ہے۔ اسی فلکیاتی مظہر نے ثریا کو ہمارے ادب میں انتہائی بلندی کی علامت بنا دیا ہے۔

کیا ثریا یا کسی اور ستارے یا سیارے کی گردش سے انسانی زندگی متاثر ہوتی ہے؟ سائنس کی رو سے تمام اجرام فلکی میں سے صرف سورج اور چاند ارضی زندگی پر قابل اندازہ حد تک اثر ڈالتے ہیں۔ چاند کا اثر نسبتاً خفیف ہے اور زیادہ تر مدوجزر کی صورت میں ہوتا ہے۔

چاند کی قوت جاذبہ کے اثر سے ساحلی علاقوں میں پانی کی موجیں چھ گھنٹے تک ساحل کی طرف بڑھتی رہتی ہیں، پھر اتنا ہی عرصہ سمندر کی طرف واپس جاتی ہیں۔ اور یہ دور ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ نئے چاند کی تاریخوں مں یہ موجیں زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ ساحلی علاقوں میں پانی کے حیوانات اور نباتات مدوجزر سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ بقا کے لیے انھیں غذا اور دھوپ حاصل کرنے کے طریقوں اور دوسرے ضروری معمولات کو اس مستقل نقل و حرکت سے متوافق کرنا پڑتا ہے۔

اور سورج تو براہ راست یا بالواسطہ زمین اور ارضی زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتا ہے۔ زمین کے اندر اندر اور سطح پر جو قدرتی تبدیلیاں ہورہی ہیں وہ سورج ہی کی کارکردگیاں ہیں۔ زمین پر زندگی کے تمام لوازمات، بالخصوص غذا، توانائی اور محفوظ ماحول، سورج ہی فراہم کرتا ہے۔ سورج سے حرارت اور روشنی کے علاوہ کئی اور طرح کے اشعاع ہوتے رہتے ہیں مثلاً ریڈیو، مقناطیسی موجیں، الکٹرونوں کی بوچھار، ایکس شعاعیں ( ”سورج کے کورونا“ سے! ) ، وغیرہ۔ انھی سے زمین کے اردگرد کی فضا مترتب ہوئی ہے۔ اس فضا میں مختلف عمل اور رد عمل جاری رہتے ہیں جن سے بعض اوقات زمین پر بڑے پیمانے کے ماحولیاتی واقعات رونما ہوتے ہیں۔

کمال ابدالی
Latest posts by کمال ابدالی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments