کورونا وائرس کے بارے میں مرنے والوں کی لاشیں کیا بتاتی ہیں؟


جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے کووڈ مریضوں کی لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے نتائج پر مبنی رپوٹ پیش کر دی۔ اس میں ان اہم ترین سوالات کے جوابات موجود ہیں جو اس وقت ہر انسان کے اعصاب پر سوار ہیں۔

کورونا وائرس خاص طور سے کن لوگوں کے لیے خطرہ ہے؟ کون کون سی بیماریوں میں پہلے سے مبتلا مریضوں کو زیادہ خطرات لاحق ہیں؟ کیا کووڈ انیس کا شکار ہو کر مرنے والوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم ضروری ہے؟

ان سولات کی روشنی میں رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ (آر کے آئی) کے پوسٹ مارٹمز پر مشتمل انکشافات خوفناک ہیں۔

برلن میں قائم رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ (آر کے آئی) کی ویب سائٹ پر اپریل کے آغاز میں مردہ کووڈ 19 مریضوں کے داخلی جسمانی معائنے یعنی پوسٹ مارٹمز اور ائروسول پیدا کرنے والے اقدامات سے گریز کرنے کے نظریے کی وکالت کی گئی تھی تاہم متعدی بیماریوں کے لیے ذمہ دار وفاقی ایجنسی نے بعد میں اپنا خیال بدل لیا۔ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر، لارس شاڈے نے زور دے کر کہا کہ پوسٹ مارٹم، درست عمل ہے، خاص طور پر اگر یہ بیماری نئی ہے تو اس کا شکار ہوکر مرنے والوں کا زیادہ سے زیادہ پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے لیکن مناسب احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔

جرمن پیتھالوجسٹس کی فیڈرل ایسوسی ایشن کے صدر، کارل فریڈرک بیورگ کا کہنا ہے، ”پوسٹ مارٹم نہ کرنا ایک غیر دانستہ غلطی ہے۔“ ان کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سمیت تمام جدید متعدی بیماریوں کی وجوہات، ساختیات اور پس منظر جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم بہت ضروری ہے۔

ہیمبرگ میں سب سے بڑا ڈیٹا بینک

رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے تمام پیتھالوجسٹ ابتدائی طور پر پوسٹ مارٹم سے گریز کرنے کے نظریے کے حامی تھے۔ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر ہیمبرگ۔ ایپنڈورف کے انسٹی ٹیوٹ آف فارنسک میڈیسن کے ڈائریکٹر کلاؤس پوشل کے پاس آج کا سب سے وسیع ڈیٹا بیس موجود ہے۔ کلاؤس پوشل نے کہا، ”ہم زندوں کے لیے مردوں سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔“

پیتھالوجسٹ کلاؤس پوشل کے مطابق 22 مارچ سے 11 اپریل تک، انہوں نے 65 کووڈ 19 مریضوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔ ان میں سے 46 کو پہلے ہی سے پھیپھڑوں کی بیماریاں تھیں، 28 مردوں کو داخلی ٹرانسپلانٹڈ اعضا کی بیماریاں تھیں۔ 10 کینسر، ذیابیطس یا موٹاپے سے جڑے امراض کے تھے اور 16 ڈیمینشیا میں مبتلا تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ کو یہ بیماریاں تھیں۔ کلاؤس پوشل کے ڈیٹا بیس میں اب 100 سے زیادہ پوسٹ مارٹمز کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔ وہ سبھی تصدیق کرتے ہیں کہ مرنے والوں میں سے کوئی بھی خصوصی طور پر کووڈ 19 سے نہیں مرا لیکن سب کو دل کی تکلیف، ہائی بلڈ پریشر، آرٹیروسکلروسیس، ذیابیطس، کینسر، پھیپھڑوں یا گردے کی خرابی یا جگر فعال نہ رہنے کے سبب موت کے منہ میں جانا پڑا۔

تاہم، پوشل کے مطابق، کورونا کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ لیکن وہ وسیع پیمانے پر خوف کو مبالغہ آمیز تصور کرتے ہیں۔ پوشل کا کہنا ہے، ”یہ خاص طور پر خطرناک وائرل بیماری نہیں تھی“ ۔ لہٰذا کچھ پابندیاں جیسے کہ میت کی آخری رسومات پر رشتہ داروں کی شرکت پر پابندی کو وہ بلا جواز سمجھتے ہیں۔ طبی معائنہ کرنے والوں کا کہنا ہے، ”آپ کو میت کوچومنا نہیں چاہیے، لیکن آپ ان کو دیکھ سکتے ہیں اور ان کو چھو سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس کے بعد ہاتھ دھو لیں۔“

اٹلی اور سوئٹزرلینڈ میں تحقیقات

پوشل کا ڈیٹا تقریباً اٹلی کی وزارت صحت کی تحقیق کے مطابق ہے، جو پوسٹ مارٹم پر مبنی نہیں ہے، بلکہ 1738 ہلاک مریضوں کی پہلے سے چلی آرہی بیماریوں کی ہسٹری پر مشتمل ہے۔ کووڈ 19 کے علاوہ، 96.4 فیصد کو کم از کم ایک اور بیماری تھی۔ سب سے عام ہائی بلڈ پریشر ( 70 فیصد) ، ذیابیطس ( 32 فیصد) اور قلبی امراض ( 28 فیصد) تھے۔ اٹلی میں مرنے والوں کی اوسط عمر 79 سال ہے۔ ہیمبرگ میں 80 سال۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل کی یونیورسٹی ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے سربراہ الیگزانڈر زنکوف کے زیر معائنہ تمام 20 مردہ کوویڈ 19 کے مریضوں کو بھی ہائی بلڈ پریشر کا سامنا تھا۔ اس کے علاوہ، ان میں سے زیادہ تر اوور ویٹ یا زیادہ وزن کا شکار تھے۔ دوتہائی کو دل کی تکلیف تھی اور ایک تہائی کو ذیابیطس۔ تاہم، بازل سے تعلق رکھنے والے چیف پیتھالوجسٹ اس بیماری کو نسبتاً بے ضرر نہیں سمجھتے۔ زنکوف نے کہا، ”شاید یہ تمام مریض کووڈ 19 کا شکار ہوئے بغیر کچھ عرصہ زیادہ زندہ رہتے، شاید ایک گھنٹہ، شاید ایک دن، ایک ہفتہ، یا ایک سال۔“

جرمنی میں رسک گروپ بہت بڑا ہے

برلن میں تحقیقاتی مرکز شاریٹے کے چیف پیتھالوجسٹ، ڈیوڈ ہورسٹ نے بھی روزنامہ برلینر سائٹنگ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ تمام میتوں کو پچھلی بیماریوں کا سامنا تھا، یعنی قلبی نظام یا پھیپھڑوں کا عارضہ۔ ان میں سے کچھ کا وزن بھی زیادہ تھا۔ تاہم، یہ بیماریاں جرمنی میں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں انتہائی عام ہیں۔ ہر تیسرا فرد ان سے متاثر ہے۔ ڈیوڈ ہورسٹ کے بقول، ”ہم اس اعتبار سے جرمنی میں ایک بہت بڑا رسک گروپ دیکھ رہے ہیں، جس میں کورونا انفیکشن زیادہ تر مہلک اثرات کا حامل ہوتا ہے۔“

کووڈ 19 کے اثرات کے بارے میں، انہوں نے مزید کہا کہ پھیپھڑوں کو شدید نقصان پھیپھڑوں میں جمع ہونے والے مائع سے پہنچتا ہے جو گیس کے تبادلے کو روکنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، اکثر ان خراب شدہ پھیپھڑوں میں بیکٹریا پھیل جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ شدید نمونیا اور سیپسس کا باعث بنتے ہیں پھیپھڑوں سے قطع نظر، خون جمنے کے عارضے اکثر پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”خون کی وریدوں میں تھومبی کی شکل جیسی چیز جمنے لگتی ہے جو پھر بڑے پلمونری ویسلز میں جاسکتے ہیں اور شدید قلبی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اعضا میں مائکروتھرومبی بھی نقصان کا باعث بنتی ہے۔

چیف پیتھالوجسٹ، ڈیوڈ ہورسٹ اس بحث کو بدقسمتی قرار دے رہے ہیں کہ تمام اموات کی وجہ ’کورونا‘ کو سمجھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرنے والوں میں سے سب ہی کو پچھلی بیماریوں کا سامنا تھا، لیکن جان لیوا حد تک نہیں کہ وہ مر ہی جاتے۔

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments