وبا کے دِن اور گل مرگ


بارش تھم گئی تھی۔ اب آسمان پر بادل کی ایک دھجی تک نہ تھی۔
فضا یوں دُھل کر صاف ہوئی تھی کہ میں نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھتا تو کہیں رکتی ہی نہ تھی اور لگتا اگر کچھ اور دیر یونہی دیکھتا رہا تو عرش بالا پربچھا وہ عظیم تخت بھی نظر آجائے گا جس کے بارے میں، اپنے بچپن سے یہ تصور قائم کر رکھا تھا کہ خدا اس پر بیٹھا امور کائنات چلا رہا تھا۔ میں کئی دِنوں کے بعد سیڑھیاں چڑھ کراوپرآیا تھا۔ پیچ دارسیڑھیاں چڑھتے ہوئے سارا زور گھٹنوں اور ٹخنوں پر پڑتاتووہ دُکھنے لگتے تھے۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا تھا اور اگر کہیں کوئی درد تھا بھی تو تازہ ہوا کے جھونکے نے میرا یوں استقبال کیا تھا کہ میں اس درد سے بے نیاز ہو گیا تھا۔

 یہ سب میرے لیے غیر معمولی تھا۔

میں چلتے چلتے چھت کے مشرقی کونے تک گیا۔ وہاں، جہاں سے دور کا منظر نیلگوں ہوتا گیا تھا، حتی کہ وہاں وہ پہاڑی سلسلہ بھی نظر آنے لگا تھاجس کی چوٹیاں آسمان کو سہارے ہوئے تھیں۔
میں نے اُنہیں حیرت سے دیکھا تھا۔ یہ پہاڑی سلسلہ اس سے پہلے وہاں نہ تھا۔ جب میری پوسٹنگ مری میں تھی تو مطلع صاف ہونے پر گلمرگ کے یہ پہاڑ، وہاں کشمیر پوائنٹ سے جھلک دِے جاتے تھے یا پھرپتریاٹہ کے اوپروالے پوائنٹ سے، جہاں لفٹ جاکر اپنی سواریاں اُتارتی تھی۔ اب جو میں دیکھ رہا تھا یہ عین مین ویسے تھے جیسے میں نے لگ بھگ تیس اکتیس سال پہلے دیکھے تھے۔
وہیں، بالکل اُسی سمت، یوں جیسے قدرت نے ایک بڑے جادوئی کینوس پر نیلے رنگ سے انہیں پینٹ دیا تھا۔
نیلا رنگ ہرکہیں تھا۔ دور، وہاں جہاں آسمان زمین سے مل رہا تھا اور عین سر کے اوپر تک جہاں یہی آسمان کہیں زیادہ شفاف ہوگیا تھا؛ اتنا زیادہ شفاف، جیسے وہ ایک عدسہ تھا اوراس کےآرپاردیکھا جاسکتا تھا۔
مجھے اسلام آبا د میں رہتے ہوئے تین سے زیادہ دہائیاں بیت چلی تھیں۔ ان برسوں میں ایک بار بھی ایسا منظر دیکھنے کو نہ ملا تھا جو اب دیکھ رہا تھا۔ بارشیں پہلے بھی ہوتی رہی تھیں اوراس سے کہیں زیادہ شدید ہوتی رہی تھیں۔ مجھے وہ بارش تو بالکل نہ بھول پائے گی جسے محکمہ موسمیات والوں نے کلائوڈ برسٹ کا شاخسانہ کہا تھا اور بادلوں سے کئی روزمسلسل چھاجوں پانی برستا رہا تھا۔ تب لگتا تھا جیسے آسمان پر موجود پانی کے ذخیرے کے سارے بند ٹوٹ گئے تھے۔ پنڈی کا نالہ لئی اپنے کنارے توڑ روند کر کچھ اس طرح شہر میں دندناتا پھرتا تھا جیسے بے نتھا بیل بگڑ کر نکلا تھا اور راہ میں آئے ہر ایک کو اپنے سموں تلے کچلتا اور سینگوں پر اُچھالتا جاتا تھا۔ تب بھی ہم حد سے حد یہاں سے اپنے والے کشمیر کے پہاڑوں کو دیکھ پائے تھے۔
اب جو میں یہاں سے وہ کچھ دیکھ رہا تھا جو گزشتہ کئی دہائیاں پہلے نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا تو نہ جانے کیوں مجھے یقین سا ہو چلا تھا کہ ایسا محض تازہ بارش کے سبب نہیں ہوا تھا۔ عالمی وبا کے سریع پھیلائو کی اطلاعات اور اس کا شکار ہونے والوں کے بڑھتےاعداد وشمار جس طرح میڈیا پر آرہے تھے، کبھی کبھی لگتا تھا سب جھوٹ تھا۔ اگر کوئی سچ تھا تو بس ایک جھوٹ جو بڑے وسیع پیمانے پر بیچا جا رہا تھا۔ خوف بھی اور ہینڈ سینیٹائزر اور صابن سے لے کر فیس ماسک اور دستانوں تک جیسی بے وقعت اشیا بھی جوکم یاب ہو کر مہنگے داموں بک رہی تھیں۔ یہ بے وقعت اشیا اس خوف سے عارضی بچائو کا وسیلہ تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے اتنی ترقی کی تھی کہ یہ خوف اوراس خوف سے وابستہ سودا پوری دنیا میں ایک سا بک رہا تھا اور شاید اِسے اُس وقت تک بِکنا تھا جب تک اس موذی مرض کی ویکسین تیار ہو کر اس سے کہیں زیادہ مہنگے داموں نہ بکنے لگتی۔
میڈیا جھوٹا تھا۔ یہ ایک مذہبی رہنما نے کہا تھا اوراِس سے پہلے کہ ہم اُس کے کہے پرکامل ایمان لے آتے اُس نے میڈیا ہی پرآکراپنے الفاظ واپس لیے اور ہاتھ جوڑ کرمعافی مانگ لی تھی۔ سچ کہاں تک تھا اور جھوٹ کہاں سے شروع ہوتا تھا ہم نہیں جانتے تھے۔ ہم کیا شاید کوئی بھی نہیں جانتا تھا مگر یہ ٹی وی اور اخبار تھے یا سوشل میڈیا، سب اپنا کام کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پرتو کئی سازشی تھیوریا ں گردش میں تھیں جن کا ذکر رواروی میں ٹی وی پراینکرز بھی کر گزرتے تھے۔ یہاں تک کہا جا رہا تھا کہ ہو نہ ہو یہ وائرس لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا، ایک نئی جنگ کے لیے، جس کا آغاز ہو چکا تھا۔ دہشت گردی کے بہانے چھڑنے والی جنگ کے بعد ایک نئی جنگ۔ کوئی کہتا نہیں صاحب، یہ سازش نہیں حقیقت تھی۔ اللہ کا قہر؛ یہ مذہبی لوگ کہہ رہے تھے، اورسمجھا رہے تھے کہ دیکھو، آدمی جب قدرت کا منکر ہو کرمنہ زور ہوا، تو اس نے یاد دلایا کہ میں ہوں، اور سب انسانوں کو بے بس کرکے رکھ دیا۔ کچھ کے لیے یہ مذہب کی ناکامی تھی کہ ساری عبادت گاہیں بند پڑی تھیں اور دَم دعائیں، تعویزگنڈھے، چلے اور مراقبے کچھ کام نہ کر رہے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اسے سائنس کی ناکامی کہتے تھے۔ محض ناکامی نہیں، تباہ کاری بھی۔
یہاں تک کہا گیا کہ یہ موذی وبا فائیوجی ٹاوز سے پھیلائی گئی تابکاری کا شاخسانہ تھی۔ ایسا خیال کرنے والوں نے برطانیہ میں ایک عرض داشت تیارکی تھی جس پر دس ہزار سے زائد لوگوں نے دستخط کیے تھے جن میں کئی مشہور لوگ بھی شامل تھے۔ اس عرض داشت میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ فضا سے آکسیجن چوس کر موت کے سگنل بھیجنے والی اس ٹیکنالوجی پر پابندی لگائی جائے۔ اسے سازشی تھیوری کہہ کر رد کر دیا گیا۔ مگر لوگ فائیو جی ٹاوز پر چڑھ دوڑے اور بیس بائیس ٹاوزتو جلا ڈالے تھے۔ نیچے عوام ہی نہیں، سازش کی بو سونگھنے والے اوپر تک موجود تھے۔ امریکہ اور چین کے درمیان الزامات کی جنگ چھڑ گئی تھی۔ امریکی صدر نے کرونا کو چائنا وائرس کا نام دے ڈالا اور چین والے اس وبا کا ذمہ دار ان امریکی فوجیوں کو قرار دینے لگے جو ان کے ہاں ووہان گئے اور بہ قول اُن کے، اِس کا بیج بو آئے تھے۔
مجھ جیسا عام آدمی یقین سے کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ تاہم اب جب کہ میں دور تک دیکھ سکتا تھا یقین سے کہہ سکتا تھا کہ ایسا محض بارش برسنے کے بعد فضا کے دُھل جانے سے نہیں ہوا تھا۔ تالا بندی ہر کہیں تھی۔ لوگوں کے گھروں میں دُبک بیٹھنے سے ٹریفک کا رش ٹوٹ اور سڑکوں سے اٹھتا دھواں معدوم ہو گیا تھا۔ صنعتیں اور کارخانے بند ہوئے تو زہریلی گیسوں کا اخراج بھی بند ہوگیا اور خبر آئی تھی کہ اوزون کی تہہ میں پڑا شگاف خود بہ خود بھرنے لگا تھا۔ میں فضا میں دورتک دیکھ سکتا تھا لہٰذا اس خبر پر یقین آ گیا تھا کہ اوزون اوپر سے برستی ان بنفشی شعائوں کو وہیں روک رہا تھا جو ہمارے وجود کے لیے ضرر رساں تھیں۔ میں نے لمبا سانس لیا، اس فضا میں جس میں کوئی زہریلی گیس نہیں تھی۔ مجھے لگا جیسے میرے اندر کے کئی شگاف بھر گئے تھے۔ میرا وہ سارا اضمحلال اچٹتا چلا گیا جو لاک ڈائون کے اس سارے عرصے میں میل کی طرح تہہ بہ تہہ میرے وجود پرجمتا رہا تھا۔
جس طرح فضا بدل گئی تھی، مجھے یقینی لگنے لگا تھا کہ اس وبا کے ٹلنے تک انسان بھی بدل جائے گا۔ لوگ سوچنے لگے تھے کہ بہت کچھ بوجھ تھا جو ہم نے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ عالمی معیشت دھڑام سے نیچے گری تو اس کی بنیادوں کا کھوکھلا پن نظر آنے لگا تھا۔ دُنیا اِس رُخ سے ضرور سوچے گی۔ یہ میں نے سوچا تھا اوراپنے اوپر سایہ کیے آسمان کی وسعتوں میں دور تک دیکھتا چلا گیا تھا۔
میرے اندر سے پہلی بار زندگی کا لطیف فوارا پھوٹ بہا تھا۔ میں نے منھ کھولا اورتازہ ہوا غٹاغٹ لنڈھا کراپنے پھیپھڑے بھرلینا چاہے۔۔۔ مگربرا ہواُس گھنٹی کا جو چالیس پینتالیس سیڑھیاں نیچے لائونج میں بجنے لگی تھی۔ میں اوپر رُجھا ہوا تھا؛ اتنا کہ پہلے پہل مجھے گماں سا گزرا کہ کہیں دور سے گھنٹی جیسی آوازآئی تھی۔ سیڑھیوں سے گھومتی گھماتی اوپر آنے والی آوازاتنی مدہم تھی کہ میں نے اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ گھنٹی دوسری بار بجی۔ اس بار بھی آوازمدہم تھی۔ مدہم بھی اور مختصر بھی۔ یوں، جیسے گیٹ پر کھڑے شخص نے بٹن پر انگلی رکھی اور یہ سوچ کراُٹھالی تھی کہ اُس سے کچھ غلط ہو گیا تھا۔ ایسا دِن بھرگھنٹیاں بجانے والے عادی منگتے نہ کرتے تھے۔ وہ تو بٹن دبا کر اُنگلی اُٹھانا بھول جایا کرتے تھے۔
سرکار کی پالیسی بہت ڈھلمل تھی۔ لاک ڈائون تھا بھی اورنہیں بھی۔ اگرچہ اس کا دورانیہ بڑھا دِیا گیا تھا مگر یہ پہلے سے کہیں زیادہ غیر موثر ہو گیا تھا۔ مذہبی طبقے کے آگے سرکار نے ہتھیار ڈال دیے تو مسجدوں میں نمازیوں کی آر جار شروع ہو گئی۔ کاروباری لوگوں کے کچھ مطالبے مانے گئے تو بازار بھرنے لگے۔ حکومت کی طرف سے دیہاڑی داروں کی امداد کا اعلان ہوا تو مفت خورے، نشئی اور عادی منگتے، غول درغول سڑکوں پر دندنانے لگے تھے۔ جہاں کہیں سے راشن بٹنے کی بھنک ان کے کانوں میں پڑتی، سفید پوش ضرورت مند ایک طرف کھڑے رہ جاتے، اوریہ وہاں پہنچ کر سب کچھ اڑا لے جاتے۔
میں نے اوپر سے نیچے جھانک کر دیکھا، باہرگیٹ پر کھڑا شخص ذرا ہٹ کر زمین پر بیٹھ گیا تھا۔ میں چھت سے اس کا چہرہ نہ دیکھ سکتا تھا لیکن مجھے وہ کوئی ضرورت مند لگا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مایوس ہو کر چلا جاتا میں سیڑھیوں کی طرف یہ سوچتے ہوئے لپکا کہ لاک ڈائون نے کیسے کیسے لوگوں کو ضرورت مند بنا دیا تھا۔
لاک ڈائون کا سوچتے ہی میں نے ایک بار پھراس سمت دیکھا جہاں گلمرگ کے پہاڑ ہو سکتے تھے۔ اب شاید وہ وہاں نہیں تھے۔ وہاں جیسے بجلی کا ایک کوندا لپکا تھا، گلمرگ سے نیچے کی طرف، بارہ مولا میں، بانڈی بالا میں اورساری وادی میں۔ جہاں اپنی آزادی کے خواب دیکھنے والے وبا پھوٹ پڑنے سے بہت پہلے لاک ڈائون میں تھے۔
وہ لاک ڈائون میں تھے اور چن چن کر مارے جا رہے تھے یا گم ہو رہے تھے۔
گم ہونے یا مارے جانے کی خبریں مسلسل آتی رہتی تھیں؛ پہاڑوں کے اُدھر یا اِدھر سے بھی۔
دور کا منظر دھندلاتا چلا گیا تھا۔ میں مڑا اورسیڑھیوں سے یوں اُترنے لگا کہ میرے ٹخنے اور گھٹنے ہی نہیں پورا وجود دُکھ رہا تھا۔ میں آدھی سیڑھیاں اُتر چکا تو نڈھال ہو کر وہاں بیٹھ گیا تھا جہاں اوپر دیکھنے سے آسمان ایک چوکٹھا سا نظر آتا تھا۔ کچھ ایسا جیسے کسی بچے نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر نیلا رنگ مل کر اُسے وہاں چپکا دِیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments