افسانہ: رنڈی کی اولاد


رنگ برنگ قمقے۔ زرق برق لباس۔ گلاب اور چنبیلی کی خوشبو سے مہکتے چوبارے۔ پنواڑیوں کی صدائیں۔ ہوا کے دوش پر سفر کرتی طبلے اور سارنگی کی آواز میں۔ نسوانی قہقوں۔ خوبصورت جھروکوں سے لہراتے جھلک دکھلاتے رنگین آنچلوں کے بیچ۔ لکڑی کے فرش پر تھرکتے قدموں کی دھمک کے ساتھ کھنکتے گھنگروؤں اور چھن چھن چھنکتی چوڑیوں کے شور میں بھلا کوئی کسی بچے کی آواز کیوں کر سنے؟ اور وہ بھی تب، کہ جب وہ بچہ ایک لڑکا ہو۔

جی ہاں۔ میں وہ بچہ ہوں کہ جسے آپ عرف عام میں رنڈی کی اولاد کہتے ہیں۔ رنڈی کی اولاد بھلے ہی آپ کے لئے گالی ہووے گی مگر میرے لئے تو یہی میری پہچان ہے۔ ساری زندگی لوگوں نے مجھے اسی نام سے تو پکارا ہے۔ اب تو میں اس نام کا اتنا عادی ہو چکا ہوں کہ اپنا اصل نام بھی یاد نہیں رہا۔ اکثر سوچتا ہوں کہ مرنے سے قبل اپنا کتبہ خود تیار کرواؤں اور اس پر جلی حروف میں لکھواؤں کہ یہاں ایک رنڈی کی اولاد سو رہی ہے۔

لیکن پھر سوچتا ہوں کہ آخر کسی رنڈی کی اولاد کو بھلا کسی کتبے کی کیا ضرورت؟ اس حوادث آباد عالم میں مجھ جیسی کتنی ہی رنڈی کی اولادیں فنا ہو گئیں مگر کیا کسی نے کبھو یہ کتبے والا چونچلا کیا؟ اور بالفرض اگر میرے مرنے کے بعد کبھی کسی کو کتبے کا خیال آ بھی گیا تو بھلا وہ اس کے سوا لکھواوے گا بھی کیا؟ بس پھر اسی خیال کے تحت کتبہ بنوانے کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیتا ہوں اور یوں اس دن کی دارو کا انتظام ہو جاتا ہے۔

خیر تو میں کہاں تھا۔ ہاں یاد آیا۔ وہ ایک رنگین شام تھی۔ رنگین اور دکھی کر دینے والی پررونق شام۔ اسی شام میں نے ایک رنڈی خانے کے تنگ و تاریک کمرے میں آنکھ کھولی۔ ایسا کمرہ کہ جس کی بوسیدگی قرنوں کے افسانے۔ اور صدیوں کے قصے سناتی تھی۔ کمرے کی سیلن زدہ دیواروں کے بیچ، دواؤں اور سپرٹ کی پھیلی بو میں، میں نے زندگی سے خراج وصولا اور اپنا پہلا سانس کشید کیا۔ دائی جہانی کے مطابق۔ میری ماں۔ جو شاید روز چوبارے کی سیڑھیاں چڑھ کر آنے والے نت نئے مردوں کی مردانگی سے اتنی خائف تھی، کہ اس نے میری ننھی ناتواں ٹانگوں کے درمیان لٹکتی میری مردانگی کی علامت پر نظر پڑتے ہی مجھے نفرت اور حقارت سے پڑے دھکیل دیا۔

مجھے اس بات کا ہرگز کوئی قلق نہیں کہ میری ماں نے مجھے کبھی نہ اپنایا۔ قلق آخر کو ہو بھی کیوں؟ کیا کسی رنڈی کے یہاں پیدا ہونے والا لڑکا کچھ اس سے مختلف قسمت بھی لکھوا کر لایا ہے کبھی۔

بھلے ہی میری ماں نے مجھے اپنے آپ سے دور کر دیا اور مجھ سے بے انتہا نفرت بھی کی۔ مگر پھر بھی وہ کبھی مجھ سے قطعی غافل نہ ہوئی۔ وہ مہینے میں ایک مرتبہ ضرور دائی جہانی کے کمرے میں آتی اور اس کی مٹھی میں کچھ روپے پکڑا کر جاتے ہوئے ایک حقارت بھری نظر مجھ پر ڈالنا ہرگز نہ بھولتی۔ یقین جانئے کہ وہ حقارت بھری نظر بھی مجھ رہین رنج و تعب کے لئے کسی نظر التفات سے کم نہ ہوتی تھی۔ میں لمحہ لمحہ گن کر گزرتا کہ کب ماں آئے۔ اور ایک بار پھر مجھے حقارت بھری سے دیکھے۔ مجھے اس کی نفرت میں بھی اپنے لئے محبت کا بے کراں سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا تھا۔

اگر کبھی ایسا ہوا کہ ماں کو دائی جہانی کے کمرے کی دانگ آتے دیر ہوئی اور میرا دل ماں کی دید کو زیادہ ہی بیقرار ہوا تو میں اکثر دائی جہانی سے نظر بچا کر دالان میں جا لٹکتا اور نیچے صحنچی میں بیٹھی ماں کو بال سکھاتے دیکھا کرتا۔ ایسے میں اگر کبھی ماں سے نظریں چار ہو جاتیں تو اس کی آنکھوں میں میرے لئے جلنے والے نفرت کے شعلوں کو میری آنکھوں میں اس کے لئے محبت کا ساغر لحظہ بھر کے لئے ٹھنڈا کر دیتا اور وہ مسکرا دیتی۔ یوں ایک لحظے میں میری تمام محرومیاں اڑن چھو ہو جاتیں اور میں ماں کی اس ایک مسکراہٹ کو سینے سے لگائے کئی راتیں چین سے سوتا۔

زندگی ایک صحرا کی مانند تھی تھی۔ اور میں ایک بھولا بھٹکا مسافر۔ جو ایک لاحاصل منزل کی جستجو میں آگے سے آگے بڑھے چلے جا رہا تھا۔ ایسے میں دائی جہانی کا وجود کسی نخلستان کی مانند تھا۔ مگر یہ نخلستان بھی ایک سراب ہی ثابت ہوا۔ اور جب میں محض دس برس کا تھا تو دائی جہانی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اب باد سموم کے جھونکے تھے۔ لک و دق صحرا تھا۔ اور میرا وجود۔ دائی جہانی کا کمرہ۔ جو کبھی میرے لئے کل جہان تھا اب مجھ سے چھین لیا گیا۔

مجھے رات کو چوبارے کی سیڑھیوں کے نیچے ایک دڑبے نما کوٹھری میں تنہا سونا پڑتا۔ ایسے میں جب رات کو ڈر لگتا تو میں باہر صحن میں لگے علم کو سینے سے چمٹائے وہیں بیٹھے بیٹھے ہی اونگھ جاتا۔ کوئی کھانے کو دیتا تو کھا لیتا ورنہ امام حسین کی بھوک پیاس کو یاد کر کے خود کو تسلی دیے رکھتا۔ کئی مہینے یونہی گزر گئے اور پھر ایک دن میری زندگی میں چاچا فضل آیا۔

چاچا فضل پنواڑی تھا اور ہمارے کوٹھے کے سامنے ایک لکڑی کی صندوقچی میں پان کے لوازمات اور بڑی سی چھابڑی میں موتیے کے گجرے سجائے بیٹھا رہتا تھا۔ چاچا رات کو آتا اور پھر دن چڑھے تک وہیں رہتا تھا۔ دوپہر کے چند گھنٹے گزارنے کے لئے وہ صندوق کو تالا لگائے چھابڑی سر پر رکھے آس پڑوس کے کسی کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھ جاتا اور وہیں کہیں کونے کھدرے میں سر لپیٹ کر سوئے رہتا۔ وہ پوری ٹکسالی کی رنڈیوں کا چاچا تھا۔ عموماً رنڈیاں پان فروشوں کو کوٹھوں کے سامنے نہیں بیٹھنے دیتی تھیں مگر چاچا کا سب احترام کرتی تھیں۔ ہفتے میں ایک ادھ بار چاچا ہمارے کوٹھے کا بھی رخ کرتا اور سیڑھیوں کے نیچے میری ہی کوٹھری میں دوپہر گزارتا۔ دائی جہانی کے بعد چاچا میرا واحد غمخوار تھا جس سے میں دل کی باتیں کیا کرتا تھا۔

چاچا بھی میری طرح بھری دنیا میں تنہا تھا۔ کبھی کسی دور میں یہیں کی ہی کسی رنڈی کے عشق میں مبتلا ہوا اور یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ چاچا کی بڑی خواہش تھی کہ وہ حافظ قرآن بنتا مگر عشق کے روگ نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ اب اس کی خواہش تھی کہ میں اس کی جگہ حافظ قرآن بنوں اور کسی مسجد کا مولوی بن کر باعزت زندگی گزاروں۔ اس خواہش کا اظہار چاچا گاہے بگاہے کرتا رہتا تھا۔ مجھے بھی اپنی زندگی کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا تھا اس لئے میں نے بھی ایک دن چاچا کے خواب کو تعبیر دینے کا فیصلہ کر لیا۔

اگلے دن ہی چاچا نے میری ماں سے اجازت لی اور مجھے پاس کی مسجد کے مولوی کی سرپرستی میں دے آیا۔ اب میرا روز مرہ کا معمول بدل گیا۔ میں دن بھر مسجد میں رہتا، شام کو مغرب کی نماز مسجد میں ہی پڑھ کر چاچا کے پاس آن بیٹھتا۔ اور وہیں بیٹھے بیٹھے پان کے پتے سیدھے کر کر کے چاچا کو پکڑاتا جاتا اور چاچا پان بنا بنا کر گراہکوں کو دیتا رہتا۔ رات کو وہیں کوٹھے کے صحن میں نصب علم کے سائے میں بازو کو سرہانا بنائے ڈھے جاتا۔

کئی دن یونہی گزر گئے۔ شروع شروع میں تو مولوی مجھے سبق یاد نہ ہونے پر دوسرے بچوں کی طرح خوب زد و کوب کیا کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ اس کا رویہ تبدیل ہونے لگا۔ اب وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر دیگر بچوں کو تو پہلے کی طرح دھنک کر رکھ دیتا تھا مگر میری بڑی سے بڑی غلطی کو بھی نظرانداز کر دیتا۔ پہلے پہل تو مجھے یہ سب بہت اچھا لگا، میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنے لگا کہ میرا استاد مجھے باقی بچوں پر فوقیت دیتے ہوئے اپنے قریب بٹھانے لگا ہے۔

اس قرب پر میں پھولے نہیں سماتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس کا رویہ عجیب سے عجیب تر ہونے لگا۔ سبق پڑھانے کے دوران وہ مجھ سے بہت قریب ہونے کی کوشش کرتا۔ کبھی سبق صیحح سنانے پر مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیتا تو کبھی بیٹھے بیٹھے میرے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگتا۔ میں بچہ ضرور تھا مگر اتنا بھی کمسن نہ تھا کہ اس کے عزائم نہ سمجھ پاتا۔ اب میں نے مسجد جانے سے کنی کترانی شروع کر دی تھی۔ مسجد کے اوقات شروع ہوتے ہی میں پاس کے دربار پر چلا جاتا اور پورا دن وہاں گزار شام کو معمول کے مطابق چاچا کے پاس پہنچ جاتا۔ چاچا جب بھی مسجد سے متعلق سوال پوچھتا تو میں صاف جھوٹ بول دیتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments