کرونا: مفروضہ قوم کا مفروضہ


پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید خان (مرحوم) ایک انتہائی علم سے بھر پور شخصیت تھے۔ پرنسپل لا ءکالج یونیورسٹی آف سرگودھا رہے۔ جب لندن میں ایل ایل ایم کا تھیسسز جمع کروایا تو ڈاکڑیٹ کی ڈگری سے نوازے گئے۔ ان کی پاکستان سے متعلق دو باتیں بہت یاد آتی ہیں۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہم ایک بٹا بارہ حصہ مسلمان ہیں جب سوال کیا جاتا کہ کیوں، تو فرماتے کہ ہم سال میں صرف رمضان کے مہینے میں مسلمان ہوتے ہیں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کرتے ہیں کسی صورت روزہ نہیں توڑتے اور عملاً مسلمان بن جاتے ہیں۔

اسی طرح فرمایا کرتے کہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا سے پیچھے ہے لیکن میں نہیں مانتا کیونکہ اگر دنیا دائیں جارہی ہے تو پاکستان بائیں جا رہا ہے۔ آج ڈاکٹر صاحب کی باتیں بہت یاد آتی ہیں۔ رمضان بھی ہے اور کرونا بھی۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہماری قوم ایک مفروضہ قوم ہے جو ”جس لایا گلیں میں اودھے سنگ چلی“ (جس نے باتوں میں لگایا میں اس کے ساتھ چلی) کے مقولہ پر عین کھری اترتی ہے۔

کرونا دسمبر 2019 میں پاکستان کے شمال میں چین سے شروع ہو ا اور یکلخت سارے جہاں میں پھیل گیا۔ شاید دنیا کو اب اپنے گلوبل ولیج ہونے پر تھوڑا بہت پچھتاوا ہو۔ پاکستان میں کرونا کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا اور اب 20 ہزار سے زائد لوگ اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں لیکن ہم اپنے مفروضات سے بعض نہیں۔

ہم نے کرونا کو وبا تو کبھی سمجھا ہی نہیں کیونکہ ہمارا مفروضہ تو ہے ”مجھے اس نے کیا کہنا ہے“ ۔ اور اگر ارد گرد بیچارہ کوئی الرجی کا مریض چھینک بھی بیٹھے تو اس کو سبھی ایسے دیکھتے ہیں گویا چھوٹو گینگ اسی نے بنایا ہو۔ علامات سے عاری اور ٹی وی چینل سے ڈرے ہوئے مجھے اس نے کیا کہنا ہے والے سبھی لوگ ہلکی سے تھکان اور سردرد کو بھی کرونا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور اس کا علاج تو بائیں ہاتھ کا کھیل رہا پاکستانی حکماء نے پیاز، کینو اور وللہ عالم کیا کیا علاج دریافت کر کے سوشل میڈیا مارکیٹ میں پھلینے کو پھینک دیے۔ لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی مفروضہ قوم کی لاج رکھتے ہی بھاپ بھی لی اور پیاز بھی کھائے۔

جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہم پاکستانی ”جس لایا گلی میں اودھے سنگ چلی“ والی قوم ہیں۔ جناب عمران خان نے احتساب کا کہا اور ہم مان گئے۔ (کتنا ہوا، کتنا رہتا ہے یہ آج موضوع بحث نہیں۔ ) لیکن انہوں نے احتساب کے علاوہ کسی شے کا تذکرہ نہیں فرمایا تھا۔ لہذا گوڈ گورننس یا کرونا سے بچاؤ کے اقدامات کا ان سے کوئی تعلق نہیں اور اگر کوئی ان سے کوئی ایسی امید رکھتا ہے تو یاد رکھیں خان صاحب نے صرف احتساب کا وعدہ کیا تھا اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

رمضان المبارک اللہ کی رحمتیں لئے آ گیا۔ لاک ڈاؤن میں تمام کاروبار کھول دیے گئے مگر مساجد پر پابندی برقرار رکھی گئی۔ وزیر اعظم صاحب ہر بار ٹی وی پر آ کر فرما دیا کرتے تھے کہ لاک ڈاؤن نہیں ہے نہیں ہے کیونکہ لاک ڈاؤن اشرافیہ کے کہنے پر لگایا گیا حالانکہ بظاہر ان کی اپنی ہی حکومت ہے اور لاک ڈاؤن حکومت نے ہی لگانا تھا۔ بہرحال میں اس حکومتی کارکردگی پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ آمد رمضان پر بازار میں قیمتیں آسمان کو اپنی دسترس میں کرنے چل نکلیں۔

مسلمانوں نے اسلام کا ذخیرہ اندوزی نہ کرنے کا سبق بھی بھلا دیا۔ جیسے کرونا کی آمد پر ماسک 5 سے 50 گنا تک پہنچ گیا تھا اب وہی حال ضروریات زندگی کی عام اشیاء کا تھا اور حاجی صاحب ہر گاہک جو لاک ڈاؤن پر بات کرتا اسے بتلاتے کہ اللہ کا عذاب ہے اور پھر وہی 5 کی چیز 50 میں اسی گاہک کو تھما دیتے رہے۔ یہ حالت دیکھ کر آج ڈاکٹر صاحب کی ایک بٹا بارہ حصہ مسلمان والی بات کی نفی کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب حقوق اللہ کی بات کرتے تھے۔ شاید حقوق العباد کی بات کرتے تو کہتے کہ ہم میں سب اسلامی ہے سوائے اسلام کے۔

تو بات ہو رہی تھی کہ مساجد پر لاک ڈاؤن بر قرار رہے گا تو ہم سب نے بحثیت مسلمان اس بات کو بہت ناروا سمجھا۔ مجھے بھی برا لگا۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ یہ کوئی سازش ہے کیونکہ کرونا اصل میں کوئی شے نہیں بلکہ سازش ہے کہ مسلمان حج اور باقی عبادات سے دور رہ سکیں۔ حالانکہ یہ وہی لوگ تھے جن کا خیال تھا کہ چونکہ چائنہ نے اپنے ایک صوبے میں مسلمانوں پر ظلم برپا کر رکھا ہے لہذا ان پر یہ اللہ کا عذاب ہے۔ ڈاکٹر صاحب صحیح فرمایا کرتے تھے کہ ہماری قوم کی سمت ہی الگ ہے۔ کل جہاں حتیٰ کہ بیت اللہ کو بھی عارضی طور عوام الناس کے لئے بند کرنا پڑا مگر ہمیں مساجد کھلی چاہیں۔ 11 ماہ توہم دور ہے مگر اب ہمیں مساجد کھلی چائییں کیونکہ ہمارے مطابق تو کل جہان اس لئے لاکڈ ہے کیونکہ ہندوستان نے کشمیر میں لاک ڈاؤن کیا تھا لہذا ہم پر تو کرونا بے اثر ہونا چاہیے۔

پاکستان میں کرونا محض ایک وبا نہیں ہے، ۔ پاکستانیوں کے مفروضہ جات کی روشنی میں کرونا چائنہ میں اللہ کا عذاب، امریکہ میں چائنہ کی سازش اور باقی دنیا میں شامی 10 سالہ بچی کی بدعا اور اور انڈیا میں کشمیر لاک ڈاؤن کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں کرونا کی کہانی اگر سادہ لفظوں میں لکھی جائے تو یوں ہے کہ چائنہ والوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا تو اللہ نے ان کو نئے سال کی خوشیوں کی بجائے عذاب نازل کیا جوکہ کشمیر کے لاک ڈاؤن (جس پر دنیا ہے اعتراض نہیں اٹھایا اور ہندوستانی ظلم ہے ) کی وجہ سے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کا سبب اس لئے بنا کہ ایک شامی بچی ( جس نے موت کو گلے لگاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کو سب کچھ بتا دوں گی ) نے اللہ کو جا کر سب کچھ بتا دیا۔ مزید پاکستان میں کرونا سازش کے تحت زائرین کے ذریعے پاکستان میں بھیجا گیا اور عوام اپنے ٹوٹکوں اور پیاز کی کرامات سے محفوط ہونے ہی والے تھے تو تبلیغی جماعت نے اس کو زائرین سے لے کر پورے پاکستان میں پھیلا دیا اور اب کشمیر پوری دنیا سے چیخ چیخ کر پوچھ رہا ہے کہ ”World How was the lockdown“

آپ اس بابت خود مطالعہ کریں۔ سوشل میڈیا کی افواہوں اور مفروضہ جات سے دور رہیں۔ ایک حد تک سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔ خدارا مفروضوں سے بالاتر ہو کر عقل پر بھروسا کریں۔

آخر میں میں ایک سچا پاکستانی اور مسلمان ہوں۔ الحمدللہ میرا کسی ایجنسی یا گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔ وضاحت اس لئے کہ ہم ایٹم بم بنانے والے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر مفروضہ جات قائم کر لیتے ہیں میں نے تو تنقید کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments