مریم نواز کی خاموشی کے ضامن؟


سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی خاموشی طویل ہو رہی ہے۔ نومبر کے اوائل میں ضمانت کے حصول کے بعد مریم نواز جیل سے باہر، نواز شریف ملک سے باہر اور شہباز شریف فیلڈ سے باہر نظر آئے۔

کورونا قائد حزب اختلاف کو ملک واپس لے آیا، خدا جانتا ہے کہ وہ کورونا سے لڑنے آئے یا اپنے ’سیاسی مخالف کورونا‘ کو بھگانے مگر حالات کی بدلی ہوئی انگڑائی نے میز پر سجی بساط بدل دی۔۔۔ چال چلنے والے خود ستاروں سے آگے نکل گئے اور اپنی جگہ جمے تیر کمان سے پھسل گئے۔

گزشتہ چند برسوں میں سیاست اور سیاست دانوں کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ سب سے اہم بات جو سیاست دانوں سے سیکھنے کو ملی وہ اپنی باری کا انتظار کرنا اور وقت آنے پر اپنی اننگ کھیلنا، دوسرا سیاست دان دو جمع دو نہیں بلکہ ایک جمع دو چار نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اتفاق رائے سیاسیات دانوں کا زیور اور عوامی پشت پناہی اُن کی طاقت ہوتی ہے۔

گزشتہ جاڑے میں شہباز شریف صاحب نے تُرپ کے پتے اچھے کھیلے۔ عین اُس وقت جب اُن کے مخالف کپتان مستقل کسی بھی طرح کے این آر او کے سامنے دیوار بنے کھڑے تھے اور مخالفین کے چھکے چھڑا رہے تھے، شہباز شریف نے ہواؤں کے مخالف پرواز کی اور بقول اُن کے صاحبزادے وہ اپنے جیل میں بند بھائی کو چارٹرڈ ایمبولینس پر لندن لے جانے میں کامیاب ہوئے۔

کچھ ہی عرصے میں اُن کی نازوں میں پلی بھتیجی بھی قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد ہو گئیں۔ اب جیسا بھی ارینجمینٹ ہوا مریم نواز نے رہائی کے بعد سے اب تک آزادی نہیں پائی۔ ضمانت تو ہو گئی مگر اُن کی خاموشی کا ضامن کون ہے یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ شہباز شریف صاحب بھائی کے علاج کے لیے لندن میں مقیم رہے اور مریم رائیونڈ کے فارم ہاؤس میں بند۔ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال بھی جیل چلے گئے اور جماعت کو خواجہ آصف نے سہارا دیا۔

آرمی چیف کے نوٹیفیکشن کے معاملے پر مطلوبہ قانون سازی اور نون لیگ کی جلد بازی (جسے نون لیگ میں غیر مشروط حمایت کا نام دیا گیا) پر جماعت میں خاصی لے دے ہوئی اور جماعت تقسیم نظر آئی۔ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے تاہم از خود اس قانون سازی سے کنارہ کشی اختیار کی یہاں تک کہ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی میں اختلافات منظر عام پر آئے۔

نون لیگی قیادت اور شریف خاندان کی مستقل غیر حاضری نے جماعت میں قیادت کے خلا کو جنم دیا۔ اہم قومی معاملات، نیب کی آئے روز حاضریوں، پارلیمانی سیاست میں غیر واضح پالیسیوں نے نون لیگ کو عملی سیاست اور حقیقی اپوزیشن سے دور کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی نے ضمانت کے بعد قومی معاملات پر واضح پالیسی سے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی تاہم کورونا کے خصوصی حالات اور غیر یقینی صورتحال نے شریف خاندان کو عوامی سیاست سے دور کر دیا ہے۔

شہباز شریف کے حالیہ مطبوعہ انٹرویو کے انکشافات نے سیاسی پُتلی تماشے کی جھلکیاں پیش کی ہیں۔ اُن کے انٹرویو کے بعض اقتباسات نے پارٹی میں کسی حد تک بے چینی پھیلائی ہے۔ انتخابات سے قبل اُن کی کابینہ کی تشکیل اور نواز شریف کی بیٹی سمیت گرفتاری نے پارٹی کارکنوں کو نہ صرف الجھا دیا ہے بلکہ اُس خلا کو خاصا وسیع بھی کر دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شہباز شریف نہ تو پارٹی کو جواب دے پا رہے ہیں اور نہ ہی خود کو۔ سیاسی منصوبہ بندی میں اب اُن کا کردار کب اور کہاں آئے یہ اُن کو سوچنا ہو گا۔

نون لیگ کے ایک سرکردہ رہنما پارٹی اور صدر کی سیاست کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ رہنما شہباز شریف کے حالیہ انٹرویو کے بعد مختلف چینلز پر اپنی رائے پہنچا چکے ہیں کہ کسی قسم کی ڈیل سے نواز شریف کے بنائے گئے عوامی امیج کو نقصان ہو گا۔ وہ سیاسی شخصیت جماعت میں اپنا خاصا اثر و رسوخ بنا چکی ہے یہاں تک کہ پنڈی کے قریب ہونے سے بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

نون لیگ کی قیادت نے اگر ماضی کی سیاست دہرانے کی کوشش کی تو یہ شخصیت ایک اہم چیلنج بن سکتی ہے اور یاد رہے کہ مریم نواز کی خاموشی کی پراکسی بھی بن سکتی ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ مریم نواز کو اُسی ایک وقت کے لیے خاموشی سونپی گئی ہے کہ جب خاندانی سیاست کو ووٹ بنک کے طور استعمال کیا جا سکے۔ اگر ایسا ہے تو اس وقت جب ملک میں اپوزیشن اور خاص طور پنجاب کی سیاست کا خلا وسیع ہو رہا ہے، جب ملک کی عمومی اور پنجاب کی گورننس خصوصا ناکامی سے دو چار ہے، جب بیمار معیشت مزید کورونا زدہ ہو چکی ہے، پنجاب کی سب سے بڑی اور پاکستان کی دوسری بڑی جماعت اندرونی بحران اور کشمکش کا شکار ہے۔

شہباز شریف وطن واپس آ چکے، آمد کے فوراً بعد جس تحریک سے اُنھوں نے کام کا آغاز کیا وہ پھرتی کیوں اور کہاں غائب ہو گئی، وہ کیونکر متحرک قائد حزب اختلاف نہیں بن پا رہے، کیوں اسلام آباد آ کر مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے؟ ایسے میں کہ جب اٹھارویں ترمیم اور نیب کے مسودے پر ڈیل کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں اُن کا واضح موقف سامنے کیوں نہیں آرہا۔

نون لیگ کی کمان جس مرضی کے ہاتھ میں رہے، ڈیل کی سیاست اُنھیں عوام سے دور کر دے گی۔ ایسے میں کب تک مریم نواز اپنے ٹوئٹر پر محض ووٹ کو عزت دو کے ٹویٹ ری ٹویٹ کر کے سیاست سے منسلک رہنے کی کوشش کریں گی۔

سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے اور نہ ہی دماغ میں ٹائم پیس کہ جس میں جاگنے کا الارم لگا دیا جائے، قومی اور عوامی سیاست کرنا ہے تو پھر اپنی گھڑی نبض پر رکھیے اور نظر کلائمیکس پر ورنہ وقت کہاں کسی کا انتظار کرتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).