میرے ابا جی، حقہ اور عورت کا مرتبہ


ابا نے اپنا امتحان امتیاز سے پاس کیا، پورے نمبر لے کے، دس میں سے دس!

آپ نے جدید دنیا کا ایک فیشن ‘شیشہ’ تو دیکھ ہی رکھا ہو گا! کیا شیشہ پینے کا اتفاق بھی ہوا یا دیکھنے کی حد تک ہی شناسائی ہے؟ ماضی کی گلیوں میں جھانکتے ہوئے اگر کبھی ہم یہ کہہ بیٹھیں کہ ہم نے تو بچپن میں ہی شیشہ اصلی شکل میں برت لیا اور بھرنا بھی سیکھ لیا تو بچے آنکھیں پھاڑ کے کچھ ایسے تاثرات کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ گویا اماں کا دماغ چل گیا!

وہ نے منہ میں رکھ کے کش لگاتے، فضا میں تمباکو کی کڑوی مہک، دیسی گڑ کی مٹھاس میں گھل کے فضا میں پھیلتے ہوئے تحلیل ہوتی رہتی۔ حواس پہ چھا جانے والی یہ مہک ہر شام ہمارے گھر میں پھیل جاتی۔ ان کے بارے میں یہ واضح یادداشت ہماری ابتدائی یادوں کے خزانے میں سے ایک ہے۔

حقہ ہمارے ابا کی زندگی کا ایک ویسا ناگزیر حصہ تھا جیسا کہ ریڈیو، اور نماز! حقہ گاؤں سے شہر کی طرف ان کی ہجرت کا وہ ساتھی تھا جس نے تمام عمر ساتھ نبھایا۔ وہ دفتر میں سگریٹ پیتے اور جونہی گھر پہنچتے، حقہ تازہ ہونے کا اہتمام ہو جاتا۔

 ہماری پرتجسس طبیعت ، نت نئی باتیں سیکھنے کا شوق اور ابا سے محبت کا تقاضا وہی تھا جو ہم نے کیا۔ حقے کے پیندے میں پانی بدلنا، چلم میں گڑ اور تمباکو کی ایک خاص مقدار ڈالنا اور پھر سلگتے اپلوں سے ڈھک دینے کی ترکیب میں ہم مشاق ٹھہرے۔ آج بھی موقع ملے تو ہم اپنے ہنر کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کہ ترکیب ورق دل پہ لکھی ہے۔

 کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حقہ تازہ کرنے کے اس عمل میں ہم اردگرد والوں سے نظر بچا کے وہ بانسری نما نے منہ میں ڈال کے ابا کی طرح گڑگڑانے کی کوشش کرتے۔ مایوسی کی انتہا ہو جاتی جب ایک بھدی سی آواز برامد ہوتی۔ ہم تو شاہد تھے کہ ابا نے منہ میں دباتے تو فضا میں خوشبو کے مرغولوں کے ساتھ سروں کا تال میل بھی بکھر جاتا۔

“نے نوازی” کا یہ تجربہ کرتے کبھی ایسا نہیں لگا کہ ہم کسی چوری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بھلا ابا کیوں برا مانتے کہ ان کا اپنی اکلوتی چھوٹی بہن کے ساتھ مل کے حقہ پینا ہمارے گھر کے درودیوار کے لئے اجنبی نہیں تھا۔

ہماری پھوپھی جب بھی آتیں، بھائی کے پاس پہروں بیٹھتیں۔ موضوع گفتگو تمباکو کی کاشت اور کڑواہٹ سے لے کر مزارعین کے مسائل اور زمین سے ہونے والی آمدنی سے ہوتا ہوا نہ جانے کہاں جا نکلتا۔ پس منظر میں مسلسل ریڈیو بجتا رہتا، اور حقے کا دور چلتا رہتا۔ بھائی دو چار کش لگانے کے بعد حقے کی نے بہن کی طرف بڑھا دیتا۔ جب بہن کش لگانے میں مصروف ہوتیں، بھائی محبت بھری نظروں سے بہن کو دیکھتے ہوئے کوئی اور کتھا شروع کر دیتا۔

یہ وہی لاڈلی بہن تھی جس کے لئے ابا نے اپنے والد سے ٹکر لی۔ شادی کے تین برس بعد ہی بیوہ ہوکے میکے آنے والی بہن کا دکھ انہوں نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ یہ خیال بھی دماغ میں در آیا کہ پہاڑ سی زندگی اکیلے کیسے گزرے گی۔ زخموں پہ پھاہا رکھنے کی خاطر پہلے سکول داخل کرایا گیا اور بعد میں بہن کی مرضی جاننے کے بعد دوبارہ گھر بسانے کا ارادہ کیا گیا۔ دادا پرانی روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے جہاں بیوہ کو زندگی کی طرف لوٹنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ابا نے دادا کی ہر تاویل مسترد کرتے ہوئے دادا کی عدم شرکت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بہن کی دوسری شادی کروا کے دم لیا۔ ہماری پھوپھی نے ساری عمر بھائی کو جس نظر سے دیکھا اس سے محبت اور تشکر کی لہریں پھوٹتی تھیں۔

سچائی اور اصولوں کی خاطر والدین کے حکم کو ٹال دینے سے آخرت قطعی طور پہ خطرے میں نہیں پڑتی، ابا کی پوری زندگی اس یقین سے عبارت تھی۔ وہ نہ بہن کی خاطر روایات سے ٹکرائے بلکہ عزیز از جان شریک حیات کے لئے بھی یہی سوچ مد نظر ٹھہری۔ شادی کے پانچ برس تک آنگن ویران ہونے پہ ان کا اپنے والدین سے یہی کہنا تھا، اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے دوسری شادی کا خیال بھی انہیں قبول نہیں۔

ابا کی زندگی میں عورت مضبوطی کا ایک استعارہ تھی۔ شاہ جہاں نے عورت سے محبت کی تو تاج محل وجود میں آیا۔ ابا نے اپنے گرد موجود عورت سے محبت کی تو معاشرے کی بوسیدہ روایات کو رد کرتے ہوۓ عورت کے قدموں کو مضبوطی عطا کر دی۔ اماں سہلیوں کے ساتھ شام بتاتیں، ابا کے ماتھے پہ کبھی بل نہ آتے۔ اماں کے رشتے دار بلاتکلف مہمان بنتے، کبھی طبعیت میں ملال نہ آتا۔ اماں ابا کی تنخواہ جیسے چاہتیں، خرچ کرتیں، کبھی کوئی پوچھ گچھ نہ ہوتی۔ وہ سگریٹ خریدنے کے پیسے بھی اماں سے مانگتے۔

عورت کو پر اعتماد اور مالی طور پہ مضبوط دیکھنے کا خواب نہ جانے انہوں نے کب دیکھا اور ایمان کی طرح جزو ذات بنا لیا۔ وہ برملا کہتے،عورت کی تعلیم لڑکے کی تعلیم سے زیادہ اہم ہے۔ عورت کو باپ بھائی کے سہاروں کی بیساکھی دینے کی بجائے اپنی زمین اور اپنے آسمان کا کھوج لگانے دو۔

ہماری آپا کی نوکری کا آغاز لارنس کالج مری سے ہوا اور ابا کے لئے یہ انتہائی افتخار کا لمحہ تھا۔ ہم نے زمانہ طالب علمی میں جو چاہا، کیا، ابا کے لئے سب قابل قبول تھا۔

ابا کو اوائل عمری سے جاننے والوں کے مطابق وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ خوش لباس، کتابوں سے محبت، میوزک کے رسیا، شخصی آزادی کے قائل، اعلیٰ تعلیم کے داعی، شطرنج کھیلنے کے شوقین اور ساتھ میں مذہب کی پرتوں کو جاننے کے متلاشی۔

ہم ان کی شخصیت کی بہت سی جہتوں سے متعارف نہ ہو سکے کہ ہمارے دور میں وہ روحانیت کی منزلوں کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ کھوج کا یہ سفر انہیں انتہائی کم گو بنا چکا تھا۔ کبھی کبھی اس خاک میں موجود کسی چنگاری کی لو کچھ لمحوں کے لئے ان کی آنکھوں میں نظر آتی اور پھر چھپا لی جاتی۔

آج یہ تاسف زندگی کا حصہ ہے کہ جب کہانی گو موجود تھا، ہمارا فہم اس قابل ہی نہیں تھا کہ ان موتیوں کو دامن میں سمیٹتے۔ زندگی کی کہانی کچھ سمجھ میں آنے لگی، سوالوں کے سنپولیے سر اٹھانے لگے تو چراغ کی لو ہی گل ہوگئی، محفل کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔

کاش، ستائیس برس قبل ابا کو فالج نہ ہوا ہوتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments