سندھ پر عذاب پیپلز پارٹی


اگر آپ ٹویٹر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کا ستعمال کرتے ہیں تو آج کل آپ کو ایک ٹاپ ٹرینڈ نظر آئے گا۔ ۔ #sindhwantsqualityeducation

اس ٹرینڈ سے آپ سندھ کے لوگوں کی بے بسی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جو اپنی حکومت کی شکل میں ایک ایسے عذاب کا شکار ہیں جو کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ آرٹیکل پچیس اے کے مطابق مطابق ہر بچے کو مفت اور کوالٹی ایجوکیشن دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سندھ میں تعلیمی اداروں میں لیبز بھی موجود ہیں ایجوکیشن بجٹ بھی مختص کیا جاتا ہے لیکن سارا بجٹ سندھ کی کرپٹ مافیا کی جیبوں میں چلا جاتا ہے تعلیمی نظام میں کرپٹ لوگ سیٹوں پر بیٹھے ہیں اور ان کو بڑے سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل ہے خود بھی کھاتے ہیں اور سیاستدانوں کی جیبیں بھی بھرتے ہیں۔

آپ اندازہ لگائیں سندھ میں سائنس کے صرف نو فیصد استاد ہیں۔ جو انگلش، اردو اور ریاضی کی کتابیں انیس سو ستر میں پڑھائی جاتی تھیں آج دو ہزار بیس میں بھی وہی پڑھائی جا رہی ہیں دو ہزار آٹھ سے اب تک سندھ کی موجودہ نا اہل حکومت نے ان بارہ سالوں میں کوئی تعلیمی پالیسی مرتب نہیں کی۔ ہر سال میٹرک اور انٹر میڈیٹ امتحانات میں چیٹنگ نے سندھ کا ایجوکیشن سسٹم تباہ کر دیا۔ دنیا ٹیکنالوجی اور سائنس میں ترقی کر گئی اور دنیا میں ایک ملک کے ایک صوبے سندھ میں سکولوں کی عمارتیں ہی نہیں ہیں بچے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر کلاسز لینے پر مجبور ہیں۔

امتحانی مراکز میں کھلی بدنظمی، کتنی بار ہم نے خبر سنی کہ پرچہ ایک دن پہلے سٹوڈنٹس کے پاس ہوتا ہے گھر سے حل کر کے آجاتے ہیں۔ میرٹ کا گلا گھونٹ دیا، حکومت کی عدم دلچسپی، ضدی پن جتنی مرضی تنقید ہو جائے، ضد نہیں چھوڑنی، کوئی نیا نصاب نہیں لانا، سکولز کی بلڈنگز پر حکومت کی زیر سر پر ستی لوگوں نے قبضے جما ئے ہوئے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں روزانہ ایک نیا پرائیویٹ سکول کھل رہا ہے، دو ہزار اٹھارہ تک سندھ میں بیس ہزار سے زائد پرائیویٹ سکول کھولے گئے۔

حکومت نواز لوگوں نے جن کے پرائیویٹ سکولز ہیں نے کئی سرکاری سکولز بند کروا دیے۔ سرکاری سکولز کے ساتھ تجاوزات اتنی ہیں کہ لگتا ہے یہاں سکول نہیں کوئی مچھلی بازار ہے۔ سکولز کی عمارتوں میں لوگوں نے جانور باندھنا شروع کر دیے۔ سکولز جانوروں کا مسکن بن گئے ہیں۔ جب استاد گھر میں بیٹھے رہیں گے، تنخواہ لیتے رہیں گے، بچے آوارہ گردی کرتے رہیں گے، سال کے آخر میں بچوں کو ایسے ہی پاس کر دیا جائے گا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کتنا قابل رحم ہے سندھ کا تعلیمی نظام۔

حکومت پرائیویٹ اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ تعلیمی نظام سنبھالنے والے اداروں میں کوئی مقامی افسران نہیں ہیں سب اوپر سے کسی کی نوازش سے آئے ہوئے اور سانپ بن کر بیٹھے ہیں، جہاں قینچی چلتی ہے چلاتے ہیں، سٹی نیوز میں کبھی کسی اخبار میں یہ دیکھنے کو نہیں ملا کہ ان افسران نے کبھی کسی سکول کا دورہ کیا ہو۔ ان افسران کے پیٹ دیکھیں کھا کھا کر پھٹنے کے قریب ہیں۔ سندھ حکومت صرف غلام چاہتی ہے سکولوں کی حالت اتنی وحشتناک ہے کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگائے۔

تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ لیکن ان کے بیان دیکھ لیں ایسے لگتا ہے سندھ پاکستان کا نہیں کسی یورپی ملک کا صوبہ یا سٹیٹ ہے۔ بس کوئی ایک بیان ان کے خلاف دے دیں پوری پارٹی کھڑی ہو جاتی ہے تقریریں جھاڑنے کو۔ بس اٹھارہویں ترمیم پر کوئی بات نہ کرے صوبائی خودمختاری خطرے میں پڑ جائے گی۔

خودمختاری خطرے میں نہیں پڑے گی ان کو ڈر یہ ہے کہ اگر کہیں سندھ کا تعلیمی نظام بہتر ہوگیا تو سندھ کے لوگ ان کو جوتے ماریں گے۔ کہتے ہیں ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے لیکن سندھ کے تعلیمی نظام میں ساری کالی بھیڑیں بیٹھی ہیں۔ سندھ کے لوگ رو رو کر تھک گئے لیکن پیپلز پارٹی کو کسی قسم کی کوئی پرواہ نہیں امید کرتے ہیں کبھی سندھ کے لوگوں کی سنی جائے اور ایسی حکومت سے چھٹکارا مل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments