بادشاہوں کے مذہب نہیں ہوتے


ہمارا مسئلہ پتا کیا ہے؟ ہم آج تک مسلمان حملہ آور اور اسلام کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر پائے، ہمیں لگتا ہے مسلمان حملہ آور اور لٹریرے کا مخالف اسلام کا مخالف ہے۔ یعنی جس کو محمد بن قاسم، غزنوی، غوری یا دیگر وغیرہ پسند نہیں وہ خدانخواستہ اسلام سے ہی بیزار ہے۔

ادھر ہم مولوی اور اسلام کو لازم وملزوم سمجھ کے ایک ہی تصویر کے دو رخ سمجھتے ہے۔ لہذا کسی مولوی کا مخالف اسلام کا مخالف، مولوی کا دشمن اسلام کا دشمن، بھلے مولوی سے اختلاف اس کے انتہائی ذاتی عمل کی وجہ سے ہی کیوں نا ہو۔ یعنی استثنا و پروٹیکشن کا یہ دائرہ مولوی کے انتہائی ذاتی اعمال تک بھی پھیلا ہوا ہے۔

قصور ہمارا نہیں اس چاندی کے ورق میں لپٹے ”دھرکونے“ جیسے سبق کا ہے۔ جس میں مسلمان حملہ آور، ایک مذہبی راہنما یا عالم اور اسلام کو ایک ہی مضمون کے مختلف باب بنا کے پڑھایا گیا ہے۔

یا طاقت کے دوام کی سیاست۔ ۔ ۔ چھوڑیے۔

نتیجہ یہ ہے کہ ایک مولوی اور مسلمان حملہ آور یا حکمران کا مخالف مذہب کا گستاخ بنا کے فتوؤں کہ زد میں رکھ دیا جاتا ہے۔

دیکھیے۔ نا سارے مولوی برے ہیں اور نا سارے مسلمان حکمران لٹیرے و حکمران۔ اس تاریخ و حال میں بڑے جلیل القدر علما اور قابل مسلمان حکمران موجود ہیں جن کے وہی لوگ دل و جان سے قائل ہیں جو ایک طرف کچھ مولویوں اور مسلمان حملہ آوروں کے صف اول کے مخالف ہیں۔ تو کیا بیک وقت کچھ کی حمایت اور کچھ کی مخالفت سے ان کا اسلام بچ جائے گا؟

پہلی مخالفت ذاتی اعمال کی وجہ سے ہے اور اسلام کو وہاں بطور شیلڈ استعمال نہیں کیا جا سکتا (خود اسلام میں بھی اس کی ممانعت ہے ) اور دوسری حمایت ذاتی اوصاف اور اسلام کی اصل روح کو پیش کرنے پر ہے۔

”اور کسی قوم کی حمایت یا مخالفت تمہیں نا انصافی پر مجبور نا کرے“

”وہ شخص جو اپنی قوم کی بے جا اور نا انصافی کے معاملے میں بھی حمایت کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک اونٹ جب کنویں میں گر رہا ہو تو اس کی دم پکڑ کر ساتھ لٹک جائے۔ اور خود بھی ڈوب جائے“

”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔“

”اسلام کا لب لباب قرآن اور اس کا عملی نمونہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم“

اور دوسری طرف شاہوں اور کشور کشاوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ جو راستے میں آتا ہے مارا جاتا ہے۔ چاہے وہ باپ ہو، بیٹا ہو یا بھائی۔ مثالیں آپ کو قریب کی تاریخ سے ہی مل جائینگی کہ کس طرح رات کو ٹوپیاں سی کر اپنا گزارا کرنے والے حکمران دن کو اپنے بھائی بندوں اور تخت و تاج کی راہ میں رکاوٹ اپنے بھائی بندوں کے سر اڑایا کرتے تھے۔

یہاں تک کہ حسب ضرورت مذہب بھی ایستادہ کر لیے جاتے ہیں۔ زیادہ دوسرے مت جائیے تاریخ اکبری اٹھا کر دیکھ لیجیے۔

یہ جو خود کو مذہب کا نمائندہ بنا کر پیش کرتے آئے ہیں۔ جان لیجیے! مذہب کے نمائیندے نہیں پیرو کار ہوتے ہیں۔ کامیاب پیروکار اور ناکام پیروکار۔ اور پیروکاروں کے ذاتی اعمال مذہب سے منسوب نہیں کیے جا سکتے۔ کیونکہ مذہب ایک آفاقی حقیقت ہے جسے افراد کے اعمال کے ساتھ مکس۔ اپ نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام اور لوگوں کی ذاتی اعمال میں فرق کرنا سیکھیے۔ جو لوگ اپنے ذاتی اعمال کی وجہ سے عزت و تکریم اور عدل و حق کا امتحان پاس کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئے آپ کب تک مذہب کے رعایتی نمبر دے کر پاس کروائیں گے ان حضرات کو؟

کیا مذہب کے رعایتی نمبر لے کر پاس ہونے والے ان لوگوں کے ذاتی اعمال کا رانگ نمبر مذہب کے چہرے کو بگاڑتا نہیں آیا؟

تاریخ کھولیے۔ اور اس سے پوچھیے کہ کیا مذہب اور اس کی آڑ لینے والے ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں؟ اور مذہب کی آڑ لینے والوں نے مذہب کے اصلی پیروکاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ (تسلی کے لیے اگر کربلا کا رخ نہیں کر سکتے تو کراچی والے حضرت عبداللہ شاہ غازی یا پھر سکھر و لاہور میں واقع پاکدامن بیبیوں کے مزاروں پر دو گھنٹے گزار آئیے۔ )

ورنہ تاریخ کی ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ کو اس کو پڑھتے ہیں اس کو کھنگالتے ہیں اور سچ کی جستجو کرتے ہیں۔ یہ ان کا حال بڑا شاندار بنا دیتی ہے۔ اور جو تاریخ کو دفن کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے اوراق میں چھپے سچ کو مسخ کرتے ہیں یا اس کو کھوج نہیں کرتے یہ ان کو ہی کسی بھولی بسری اور گمنام تاریخ کا ایک حصہ بنا دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments