پاکستان میں احمدیوں سے نفرت کے تاریخی، سماجی اور سیاسی پہلو


وطن عزیز میں گزشتہ کئی دہائیوں سے احمدیوں کے خلاف ہر سطح پر نفرت انگیز اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈہ کیا گیا ہے۔ احمدیوں اور ان کے عقائد سے متعلق من گھڑت باتیں کچھ اس انداز سے پھیلائی گئی ہیں کہ ایک عام پاکستانی کے لئے جھوٹ کو سچ سے جدا کرنا ممکن نہیں رہا۔

ایک طرف تو احمدیوں کو اپنے جائز حق دفاع سے محروم کر دیا گیا تو دوسرے گروہ کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ احمدیوں کے خلاف جو چاہیں، جب چاہیں، جیسے چاہیں، کہیں، لکھیں، چھاپیں، اور نشر کریں، ان پر کوئی رکاوٹ یا قدغن نہیں ہو گی۔

چنانچہ نفرت کا پرچار کرنے والوں نے بڑی صفائی کے ساتھ احمدیوں کے عقائد اپنے طور پر وضع کر کے عام پاکستانی مسلمان کے ذہن میں کچھ ایسے انداز سے راسخ کیے ہیں کہ اب عام پاکستانی انہی باتوں کو سچ مان کر احمدیوں کے خلاف رائے بنا چکے ہیں۔

آئیے ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے احمدی مخالف پراپیگنڈے کی مختلف جہات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
احمدی مخالف پراپیگنڈے کی تاریخی جہت  اگرچہ ا

حمدیوں کے خلاف مخالفت تقسیم ہند سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی مگر 74ء میں بھٹو نے آئین میں دوسری ترمیم کے نفاذ کے ذریعہ علما کو احمدیوں کے خلاف یک طرفہ میدان مہیا کر دیا۔ اس میں مزید شدت دس سال بعد اس وقت آئی جب 84ء میں جنرل ضیا الحق نے 26 اپریل کو آرڈیننس XX یعنی ”امتناع قادیانیت“ آرڈیننس پاس کیا جس میں عملاً احمدیوں کو نہ صرف ان کے حقوق سے محروم کر دیا گیا بلکہ احمدیوں کے حقوق کو باقاعدہ جرم قرار دے دیا۔ اس آرڈیننس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی احمدی عربی زبان میں کسی کو گریٹ (Greet) کرتا ہے تو اسے 3 برس کے لئے جیل کی سزا دی جا سکتی ہے۔

ان تین دہائیوں کے دوران میں پروان چڑھنے والی پاکستانیوں کی نسلوں کو احمدیوں کے خلاف ایسی محیر العقول وجوہ کی بنا پر نفرت کرنا سکھایا گیا ہے جن کا وجود آسمان میں ہے نہ زمین میں۔

یہ تو رہی تاریخ، اب دیکھتے ہیں اس پراپیگنڈے نے احمدیوں کے خلاف کس طرح ہمارے سماجی رویوں کو متاثر کیا ہے۔

روز اول سے احمدی مخالف پراپیگنڈے کا بنیادی ہدف یہ رہا ہے کہ احمدیوں کو، ان کے عقائد کو، ان کے ممتاز علما اور بزرگوں کو، اور خاص کر جماعت احمدیہ کے بانی، آپ کے خاندان اور آپ کے جانشین سربراہان جماعت احمدیہ کو معاشرے کے عام مسلمان کے سامنے ایک ایسا ولن بنا کر پیش کیا جائے جو تمام عیوب کا منبع ہیں اور جن کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں، اسلام، اور پاکستان کے خلاف دن رات سازشیں کرنا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب آپ کہیں ”قادیانی“ یا ”قادیانیت“ ایسے الفاظ پڑھیں یا سنیں تو آپ کا ذہن خود بخود اس پراپیگنڈے کی ٹیپ کو دہرانا شروع کر دیتا ہے اور آپ بغیر سوچے سمجھے، بغیر سوال اٹھائے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہاں، ”قادیانی“ تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔ اور یوں معاشرے میں احمدیوں کے خلاف کیا جانے والا پراپیگنڈہ تیزی سے پھیلتا اور جڑ پکڑتا چلا جاتا ہے۔

1۔ احمدیوں کے خلاف نفرت کی اس مہم کا پہلا اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ احمدیوں کی شناخت کو اس قدر مسخ اور محدود کر دیا جائے کہ کوئی پاکستانی مسلمان اس دائرہ سے باہر نکل کر احمدیوں سے میل جول نہ رکھ سکے اور نا ہی احمدیت سے متعلق ایک آزادانہ، اور مدلل مکالمے کا ماحول نمو پا سکے۔

چناں چہ کتنے پاکستانی مسلمان ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ آخر احمدیوں سے متعلق جو کچھ بھی سنتے ہیں وہ سب احمدی مخالف طاقتوں کے ذریعے ہی کیوں ان تک پہنچتا ہے؟

شاید ہی کوئی پاکستانی مسلمان ایسا ہو جس نے ”قادیانیوں“ کو کافر سمجھنے سے پہلے اس بات کی زحمت کی ہو کہ ان کا موقف بھی لیا اور سمجھا جائے؟

پراپیگنڈا اسی طرح ہی کام کرتا ہے۔ اس امر میں شک نہیں کہ احمدی اور غیر احمدی عوام کے درمیان رابطوں کو روکنا اور گہری خلیج پیدا کرنا اس پراپیگنڈے کے بنیادی اہداف میں سے ہے۔

2۔ اس پراپیگنڈے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ احمدیوں کو جذبات، خواہشات اور احساسات سے بھرپور انسان کے درجے سے گھٹا کر صرف ایک پاکستان اور اسلام دشمن وجود بنا کر پیش کیا جائے۔ ایسا کرنے سے یہ ہو گا کہ احمدی عوامی ہمدردی کے اہل نہیں رہیں گے اور پھر معاشرہ احمدیوں کے ساتھ جتنا مرضی غیر انسانی سلوک کرے، سب کچھ جائز ہو گا کہ ”قادیانی دشمن دین و ملت ہے“۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا ہے۔ احمدیوں کی یہی نفرت سے بھری کردار کشی ہے کہ جب ان کی قبریں اکھاڑی جاتی ہیں، ان کے گھر جلائے جاتے ہیں، جائیدادیں چھین لی جاتیں ہیں، ان کو دن دیہاڑے قتل کردیا جاتا ہے، ان کو اسکولوں، کالجوں، اور ملازمتوں سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے، تو کوئی مائی کا لال عوام سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ”دیکھو، احمدی بھی تمہاری طرح انسان ہیں جن کو تعلیم، زندگی، اور کاروبار کا اتنا ہی حق ہے جتنا تمہیں اور یہ کہ پاکستان پہ احمدیوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا“۔

نفرت، جھوٹ، اور حقارت سے بھرے پراپیگنڈے نے عام پاکستانیوں کے دل و دماغ میں اتنی نفرت پیدا کردی ہے کہ اب ان کی اکثریت احمدیوں پہ مظالم پہ نہ صرف خاموش رہتی ہے بلکہ بسا اوقات تو علانیہ ان متعصبانہ رویوں کی حمایت کرتی ہے۔

3۔ اس پراپیگنڈے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف نفرت اور تعصب کو مسلمان کی نیکی اور تقوے سے جوڑ دیا جائے۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ جو پاکستانی، احمدیوں کے خلاف جتنی نفرت اور حقارت کا اظہار کرے گا، وہ اتنا ہی سچا، کھرا، اور پکا مسلمان مانا جائے گا۔ یعنی نفرت کو عقیدت، اور عظمت کے لبادے میں اوڑھ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور سادہ لوح پاکستانی مسلمان سوچے سمجھے بغیر ان نفرت کا پرچار کرنے والے افراد کی اقتدا کر رہے ہیں۔

4۔ چوتھا پہلو احمدیوں سے ہم دردی رکھنے والوں کو demonize کرنا ہے۔ اور یہ اس پراپیگنڈے کا نہایت موثر سیاسی پہلو بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ”قادیانی“ کارڈ کھیلتی ہیں۔ ایک سیاسی مخالف دوسرے کو ”قادیانی ہم درد“ قرار دے کر عوام کو اس کے خلاف اور اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور نفرت کا یہ پراپیگنڈا ”قادیانیت“ کی اس تاثر پر قائم ہے جو مقتدر قوتوں نے دہائیوں کے دن رات زہریلے پراپیگنڈے کی بدولت عام پاکستانیوں کے دل و دماغ میں بٹھایا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ احمدیوں نے تاریخ پاکستان اور تقسیم سے قبل مسلمانان ہند اور عالم کے لئے جو خدمات سر انجام دی ہیں، ان کا مطالعہ کر کے انصاف پر مبنی رائے قائم کی جائے جو نفرت اور تعصب سے پاک ہو۔ ہمیں ایک آزاد اور صحت مندانہ معاشرہ قائم کرنا ہو گا، جہاں کسی فرد یا ادارے کو کسی دوسرے فرد یا کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز بیانات دینے اور پراپیگنڈہ کرنے کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جاتی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments