مولانا طارق جمیل اور داعی کی نفسیات


داعی کے لغوی معنی ہیں دعوت دینے والا یا بلانے والا۔ یہ دعوت یا بلاوا، اپنے نظریے کی طرف بھی ہو سکتے ہیں، مسلک کی طرف بھی، اور مذہب کی طرف بھی۔ داعی کو اپنے نقطہ نظر، طریق یا غلبے کا لالچ ہوتا ہے۔ احمد فرہاد صاحب نے اپنی کتاب، دوسروں پر چھا جائیں، کے دیباچے میں اس سے ملتی جلتی ایک بات لکھی ہے کہ داعی کی نفسیات ایک سیلزمین کی طرح کی ہوتی ہے، وہ اتفاق اور قائل کرنے کی نفسیات کے ساتھ معاملہ کرتا ہے-

داعی چونکہ اپنے نظریے سے متعلق اس گمان میں ہوتا ہے کہ، جو کچھ اس کے پاس ہے اسی میں آدمی کی نجات ہے اور اسی میں انسانیت کا فائدہ ہے-اس لئے داعی یہ چاہتا ہےکہ جیسے میں سوچتا ہوں ویسے ہی سب سوچنے لگ پڑیں، جیسے میں دیکھتا ہوں ویسے ہی سب دیکھنے لگ جائیں، جیسی چاہت میری ہے، ویسی چاہت سب کی ہو جائے، یہی اس کی لالچ ہے، اسی کو پانے کے لئے وہ تگ و دو کرتا اور فکر مند رہتا ہے-

ویسے تو ہر انسان جس بات کو درست سمجھتا ہے اس کا پرچار کرتا ہے، اپنی بات کا ابلاغ کر کے دوسروں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن داعیانہ مزاج ہر کسی کا نہیں ہوتا-

داعی اپنے مخالف سے نفرت نہیں کرتا بلکہ اس سے محبت رکھتا ہے، داعی کسی کو دھتکارتا نہیں، پچکارتا ہے، دوسروں سے تعلق توڑتا نہیں، جوڑتا ہے، وہ اپنی بات کا ابلاغ تحکم سے نہیں کرتا بلکہ اپنی بات دوسروں کے سامنے ایسے پیش کرتا ہے جیسے دسترخوان پر کھانا پیش کیا جاتا ہے-

ہمیں اس کے نظریے اور عقیدے سےاختلاف ہوسکتا ہے مگر ایسے دردمند دل رکھنے والے لالچی ہر مسلک، مذہب اور نظریاتی لوگوں میں موجود ہوتے ہیں۔

تحریک المسلمون میں ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے، غلام احمد پرویز صاحب کے شیدائی تھے، اگرچہ پرویز صاحب کی ساری باتیں شاید ان کو سمجھ میں بھی نہ آتی ہوں، پرویز صاحب کی فکر کا اپنے الفاظ میں اظہار بھی نہیں کرسکتے تھے، مگر پرویز صاحب کے کتابچے، گاڑیوں میں سواریوں کو اور مساجد کے باہر کھڑے ہوکر نمازیوں میں تقسیم کردیتے تھے- اسی دھن میں کہ لوگ اس فکر سے متعلق ہوجائیں اور قرآنی معاشرے کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے، جبکہ یہ کام باقی سینئیر ممبر نہیں کر سکتے تھے-

میرے ایک مسیحی دوست میرے بارے میں جانتے ہوئے بھی بہانے بہانے سے مجھے مسیحیت کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ملحد دوست مہینوں میرے پاس آکر الحاد کی تبلیغ کرتے رہے، ایک اہل حدیث دوست نے اہل حدیث بنانے کی بہت کوششیں کیں، ایسے لوگوں کے نظریے سے ہزار اختلاف کے باوجود ان کے جذبہ دردمندی پر ایک حرف نہیں کہا جا سکتا-

مولانا طارق جمیل بھی اصل میں مزاجاً داعی ہیں، اگرچہ وہ کوئی محقق عالم نہیں ہیں، دین و سیاست پر سوالوں کے، علمی استدلال پر مبنی جواب بھی نہیں دے سکتے، ان کی خطابت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، ان کی فکر کی خامیاں بیان کی جاسکتی ہیں، ان کے منہ سے اسلام کے نام پر نکلے ہوئے لفظوں کی صداقت پر بھی انگلی اٹھائی جاسکتی ہے، لیکن وہ چونکہ مزاجاً عالم نہیں بلکہ داعی ہیں اس لئے اپنے اس مزاج کی وجہ سے انہیں جہاں کہیں بات کرنے کا موقع ملتا ہے، وہاں ان کا اسلوب، انداذ، اور گفتگو اس قسم کی ہوتی ہے کہ لوگوں کے دل اس طرف کو پھر جائیں جس طرف کو ان کا اپنا دل پھرا ہوا ہے-

ان کا طرزعمل جو موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہے ویسا ہی سابقہ حکمرانوں کے ساتھ تھا۔ اسی لالچ میں کہ حکمران میرا طرز فکر اپنا لیں، مخالف نظریات رکھنے والے مسالک کے لوگوں کے ساتھ بھی انہوں نے ہمیشہ مثالی میل جول رکھا ہے، جب تمام مسالک ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے، ان دنوں میں ان کے منہ سے کسی مخالف کے لئے حرف دشنام ادا نہیں ہوا، کیونکہ وہ توڑ کے نہیں، جوڑ کے مبلغ ہیں، ہزار خامیوں کے باوجود ان کی شخصیت کا یہ پہلو ہمارے انتہا پسند اور نفرت زدہ معاشرے میں، تحسین کے لائق ہے اور قابل تقلید ہے-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments