‎ اٹھارہویں ویں ترمیم کا شیش ناگ


مدت ہوتی ہے۔ کھٹمنڈو ائرپورٹ کے نیم تاریک حصے میں چار مسافر جہاز کے منتظر تھے۔ یہ کالم نگار بوریت دور کرنے کے لئے ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا کہ اچانک شناسا شکلیں دکھائی دیں ایک تو اسلام آباد کی سول سوسائٹی میں ”لبروٹا“ کے نام سے شہرت پانے والے مہربان تھے جنہوں نے سارے سول سوسائٹی کو اپنے گھر کی چہاردیواری میں قید کر لیا تھا۔ بیگم اس کے بھائی بہنیں اور باقی سسرالی خاندان پر مبنی سول سو سائٹی ڈالروں کو چونا لگاتی رہی اور جناب رضا ربانی مرکز نگاہ تھے۔ معلوم ہوا کہ وفاقیت پر ان کی کتاب کی رونمائی کھٹمنڈو میں کی گئی ہے اور فتنہ پرور افتخار اپنی ڈرامہ بازی میں مصروف تھا۔

دراصل یہ اٹھارہویں ترمیم کے لئے مورچہ بندی کی شروعات ہو رہی تھی۔ اتفاقات نے اس کالم نگار پر سارا کھیل عیاں کر دیا جس کا بنیادی مقصد اٹھارہویں ترمیم کے نام پر پاکستان کو اپاہج بنانا تھا۔

ویسے یہ ترمیم خوبیوں اور خرابیوں کا مجموعہ ہے لیکن اس کی تخلیق کا بنیادی مقصد پاکستان کی ریاست کو بازیچۂ اطفال بنا دینا تھا جو کہ حاصل کرلیا گیا۔ اس کی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ قومی مسائل جابجا حساسیت کا مظاہرہ کرنے والی جماعت اسلامی نے بھی اس ترمیم کا حمایت کی تھی لیکن ایک سیاستدان ایسا بھی تھا جو اس کے خلاف کھل کر میدان میں آیا تھا۔ وہ سابق وزیراطلاعات انجینئیر محمد علی درانی تھے۔

وہ بتاتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم متفقہ نہیں۔ 10 سال قبل جب یہ ترمیم منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش ہوئی تو میں (محمد علی درانی) ‎واحد رکن پارلیمینٹ تھا جس نے کسی دباؤ کو قبول نہ کرتے ہوئے اس بل کی مخالفت کی، اپنا ووٹ نہیں ڈالا تھا اور سینیٹ کے اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ اٹھارہویں ترمیم پرمیرا پہلا اعتراض بہاولپور صوبے کے بارے میں یحیی خان کے مارشلائی ایل، ایف، او کو آئین میں تحفظ دینے کے حوالے سے تھا جس کی وجہ سے یہ سیاہ کاری آج بھی آئین پاکستان کا حصہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم پر میرا دوسرا اعتراض ایک نہایت اہم مسئلے پرتھا کہ این ایف سی ایوارڈ کو مرکزی دولت صوبوں میں تقسیم کرنے کا فارمولہ قرار دیا گیا تھا۔ میں نے مطالبہ کیا تھا کہ جس اصول پر یہ دولت صوبوں کوملتی ہے۔ صوبوں کے اندر اضلاع میں یہ دولت اسی اصول پرصرف کی جانی چاہیے ہوتایہ ہے کہ صوبائی حکومتیں یہ دولت وصول کرنے کے بعد اسے اپنی ذاتی ملکیت بنا کر اور ضلعی ترجیحات کو روندتے ہوئے عوام کو اس سے محروم کردیتی ہیں۔

مرکز کے عوام کو مہیا کردہ وسائل پر صوبائی خود مختاری کے نام پر صوبائی حکومتوں کی من مانی اور ذاتی تصرف کو کبھی بھی (عوامی؟ ) کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بنیادی طورپر یہ ضلع کی عوام کے خلاف ظلم اور کھلی معاشی دہشت گردی ہے۔ ایسی کوئی ترمیم جو عوام کے معاشی استحصال کی بنیاد ہو اس کو نہ میں نے کل تسلیم کیا نہ آج تسلیم کروں گا۔

اٹھارہویں ترمیم کا اجمالی جائزہ عیاں کرتا ہے۔ ‎کہ اٹھارہویں ترمیم کی تاریخ کے ساتھ المیہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے پورے دستور کی اوورہالنگ کی گئی 104 دفعات میں تبدیلی یا اضافہ یابہتری یا پھر تنزل کا اہتمام فرمایاگیا۔

‎یہ ترمیم قومی اسمبلی کے اجلاس 8 اپریل 2010 میں پیش کی گئی جہاں 342 ارکان اسمبلی میں سے 292 نے اس کے حق میں ووٹ دیا پھر 15 اپریل 2010 سینیٹ میں پیش کی گئی اور منظورہوئی اور اس کے بعد 19 اپریل 2010 کو صدرزرداری کے دستخطوں کے بعد یہ دستور کا حصہ بن گئی۔

‎اس ترمیم کے نتیجے میں کئی مثبت چیزیں بھی ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ترمیم نے پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو ہلا کررکھ دیا۔

‎اگرہم اس کے بعد اہم پہلوؤں کو دیکھیں تووہ یہ ہیں۔
‎دستورمیں جنرل ضیا الحق کا منحوس نام نکالاگیا۔
‎صوبہ سرحد کا نام خیبرپختونخوا نام رکھاگیا۔
17 ‎ویں ترمیم کے لیگل فریم ورک کو ختم کیا گیا۔
‎تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی کی راہ میں رکاوٹ ختم کی گئی۔

‎پارلیمنٹ اسمبلی توڑنے کا صدارتی اختیارختم کر دیا۔
‎دستور کومعطل کرنے کو شدید ترین غداری قراردیا گیا۔
‎مشترکہ مفادات کی کونسل کا نوے دن میں اجلاس لازم قراردیا گیا۔
‎عدالتی کمیشن کی سفارش پر ججوں کے نام، پارلیمانی کمیشن ہی حتمی شکل دے گا۔
‎چیف الیکشن کمشنر حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے مقررہوگا۔
‎مینگورہ، تربت اور اسلام آباد میں ہائی کورٹ قائم کیے گئے۔

‎دوسری جانب مرکز سے جن وزارتوں کو ختم کرنے اور صوبوں کومنتقل کیا گیا۔
‎وزارت تعلیم صوبوں کومنتقل ہوگئی، البتہ مرکز میں وزارت تعلیم کا م صرف پیشہ وارانہ تربیت رہ گیا۔
‎آثارقدیمہ کی وزارت بھی صوبوں کوچلی گئی اور مرکز میں صرف وزارت ثقافت رہ گئی۔
‎ماحولیات کی وزارت کوتبدیل کرکے ماحولیاتی وزارت بنادیا۔
‎وزارت صحت صوبوں کو چلی گئی مرکز میں نیشنل ہیلتھ سربمر، رابطہ کاری اور ضابطہ بندی کا کا م رہ گیا۔
‎خصوصی اقدامات کی وزارت ختم کردی گئی۔

‎مقامی حکومتوں اور دیہی ترقیات کی وزارت ختم کردی گئی۔
‎اقلیات کی وزارت کومذہبی امور کی وزارت میں ضم کر دیا گیا۔
‎وزارت کھیل کوکھیلوں سے متعلق وفاقی بورڈ میں تبدیل کر دیا۔
‎وزارت سیاحت کوسیاحتی ترقیاتی کارپوریشن کے سپرد کر دیا۔
‎خواتین کی وزارت ترقیات کی وزارت، مرکزی ختم کردی۔
‎نوجوانوں سے متعلق امور کی وزارت مرکز میں ختم کردی۔
‎زکوۃ، عشر کی وزارت مرکز میں ختم کرکے صوبوں کو منتقل کردی گئی۔

‎اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے بڑی تیزی سے اپنے ’حقوق‘ کے تحفظ کے لیے حکومت کوکان سے پکڑکر 19 ویں ترمیم کرا ڈالی لیکن باقی چیزیں جوں کی توں رہنے دیں۔

‎سپریم کورٹ کو اپنے بارے میں حساسیت کو ادارہ جاتی مفادکہاجائے توکچھ غلط نہ ہوگا۔

‎اس ترمیم نے دس سال گزرنے کے باوجود ابہام اور انتشار کی جو کیفیت پیداکی ہے۔ اس نے سب سے زیادہ نقصان تعلیم، قومی یکجہتی اور صحت کے شعبے کو پہنچایاہے مزیدیہ کہ ”اتفاق رائے کے نام پر کشمکش کا دفترکھولا ہے۔

‎بلاشبہ پارلیمنٹ کا یہ اختیارہے کہ وہ ترمیم کرے دستوربنائے اور اس میں بہتر لائے۔ ‎لیکن ہرکام ایک قاعدے، طریقے اور اصول کے تحت ہونا چاہیے۔ دستورعوام کے لیے ہے۔ بائیس کروڑعوام کے لیے ہے۔ لیکن اس ترمیم سے متعلق کمیٹی نے اپنی کارروائی کو اس قدر خفیہ بحث مباحثے کا قیدی بنائے رکھاکہ نہ عوام کو بھنک تک پڑنے دی کہ وہ کیاکررہے ہیں اور نہ اسمبلی اور سینیٹ کو اس پربحث کرنے کا حق دیاگیا۔ اس اعتبار سے یہ ترمیم پاکستان کے 22 کروڑ عوام کویرغمال بنا کر ان کے کا ن، آنکھ، ذہن بند کرکے، بندوق کی نوک پر دستخط کرائے گئے اور صحت مند مکالمے کو راہ تک نہیں دی۔

ہم سمجھتے نہیں کہ اگر کوئی درست کا م بھی غلط طریقے سے کیا جائے گا تو اس کا م کے غلط ہونے کی بنیاد واضح طورپر موجود ہوگی۔ جمہوریت کے نام پر فسطائیت کی سب سے بڑی ذمہ دار، دو بڑی جماعتیں ہیں۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی جنہیں جمہوریت کا نام لینے اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے وقت اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے اور اس سے بھی زیادہ ذمہ دارپاکستان کا میڈیا اور اخبارات ہیں کہ جنہوں نے اس وقت یہ مسئلہ پوری قوت سے کیوں نہ اٹھایا؟

اٹھارہویں ترمیم کو فوج پر حملے کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ صدارتی نظام کے حوالے سے تبرے بھیجے جارہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کو 1971 میں لگنے والے زخموں کا بہترین مرہم بتایا جا رہا ہے کہ صرف اسی تریاق سے وفاق پاکستان کو سنبھالنا اب ممکن ہے۔ لیکن یہ انہیں قبول نہیں جو ملک کو آمرانہ اختیارات کے ساتھ اکائی کی صورت میں ایک فیڈریشن کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہمارے مسائل کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے۔ وفاق کا حجم بہت بڑھ گیا اور اب بھی یہ خواہش موجود ہے کہ اسے مزید توسیع دی جائے۔ پہلے ہی وفاق سے صوبوں کو اختیار منتقل نہ ہوا حالانکہ 1973 کے آئین کے خالقوں نے اختیارات کا بہاؤ صوبوں کی طرف کیا تھا۔ اس لحاظ سے اختیارات وفاق، صوبوں اور مقامی سطح پر درجوں میں تقسیم ہیں لیکن آئیڈیا یہ رہا ہے کہ کنٹرول وفاق کے پاس رہے اور ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کردی جائیں۔ اختیار کسی کا اور ذمہ داری کسی کی یہ نظام نہیں چل سکتا۔

تمام اختیارات رکھنے والی مرکزی بیوروکریسی کے بغیر ایک مرکز ہمارے ذہن میں نہیں سماتا۔ یہ منصفوں کو بھی قبول نہیں جنہوں نے آئین کی تشریح وتعبیر اور اس کا اطلاق کرنا ہوتا ہے۔ کوٹہ سسٹم کئی برس قبل مرحوم ہونا تھا لیکن یہ اب تک جاری ہے۔ آئین کے تحت کسی مرکزی سول سروس کا تصور نہیں لیکن ڈی ایم جی کی شکل میں وفاقی سروس کو صوبوں کے وسائل سے چلایا جا رہا ہے جو ضوابط کے صریحا خلاف ہے۔ آئین کے خاکے کے تحت یہ بھی درست نہیں کہ وفاق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے تقسیم کرے۔ یہ وہ کا م ہے جو یونین کونسل کی سطح پر ہونا چاہیے۔

یہ الزام بھی سامنے آیا کہ کنکرنٹ لسٹ آئین سے ختم ہوئی تو عدالت عظمی نے وفاق کو کنکرنٹ قانون سازی اور انتظامی طاقت سے نواز دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جناح پوسٹ میڈیکل کا لج، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکولرڈیزیز (این۔ آئی۔ سی۔ وی۔ ڈی) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ سندھ اور شیخ زید انسٹی ٹیوٹ پنجاب سے لے کر وفاق کو دے دیے۔ اس مقصد کے لئے جو وجوہات دی گئی ہیں۔ ان کو انتہائی قابل اعتراض کہاگیا ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کی اصل وجہ یہ خطرہ بتائی جارہی ہے کہ ہماری سکیورٹی ریاست کے لئے وسائل کی دستیابی ختم ہوتی جارہی ہے۔ کورونا نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم اپنی ریاستی ترجیحات اور وسائل کے استعمال پر اپنا محاسبہ کریں اور اس کا جائزہ لیں۔ سوال اٹھایا گیا کہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ قومی سلامتی کا مطلب کیا شہریوں کی سکیورٹی ہے یا پھر ریاست کی سکیورٹی مراد ہے؟ وفاقی حکومت کے حجم کو حد میں لانے پر غور کرنا چاہیے تھا۔ ہم اور بھی زیادہ وسائل سکیورٹی سٹیٹ کے لئے مختص کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری سکیورٹی سٹیٹ ٹیکس جمع کرنے کا دائرہ نہیں بڑھا سکی، تجارتی خسارہ کم اور کاروباری اعتماد کو فروغ نہیں دے سکی، یہ اپنے حجم کو حد میں لانے پر آمادہ نہیں بلکہ صوبوں سے وسائل لے کر وفاق کو دینا چاہتی ہے۔

یہ سوال بھی کیا گیا ہے کہ اور کتنا وقت ہماری سکیورٹی سٹیٹ کو درکار ہوگا کہ وہ خود کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ناقابل بقا نظام یا طریقہ کار پر کاربند رہے گی؟

چوٹی کے شہ دماغوں نے اسے تیار کیا تھا۔ لاکھوں نہیں کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ تب کہیں اٹھارہویں کا شیش ناگ خوبصورت اصطلاحات میں لپیٹ کر قوم کے گلے میں ڈالا گیا تھا۔

جو ہنگامی صورت احوال میں ہمیں ڈسنے کو تیار ہے۔ مجھے کھٹمنڈو ائیرپورٹ کا نیم تاریک کونا یاد آ رہا ہے۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments