گٹکے کے خلاف قانونی جنگ لڑنے والی صنوبر زندگی کی جنگ ہار گئیں


کراچی

کراچی کی 24 سالہ صنوبر گٹکے کے خلاف قانونی جنگ لڑتے لڑتے منہ کے کینسر سے زندگی کی جنگ ہارگئیں۔ وہ اس قانونی جنگ کی چوتھی اور پہلی خاتون درخواست گذار تھیں۔

صنوبر کے وکیل مزمل ممتاز نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جس فیکٹری میں ملازمت کرتی تھیں وہاں صنوبر کو کسی نے گٹکا دیا، جس سے اس کا ذہن سن ہوجاتا تھا اس سے اس کو لطف آنے لگا اور وہ گٹکےکی عادی بن گئیں۔

انھوں نے چار سال اس فیکٹری میں کام کیا اسی دوران منہ کے کینسر میں ہی مبتلا ہوگئی۔

صنوبر کے بھانجے عارف نے بی بی سی بتایا کہ گذشتہ سال ہی ان کی خالہ کو کینسر کا پتہ چلا تھا جب ان کے منہ میں ایک دانہ نکل آیا اور انھیں کھانے میں دشواری ہوئی جس کے بعد وہ جناح ہسپتال گئیں جہاں ڈاکٹر نے آگاہ کیا کہ انھیں منہ کا کینسر ہوگیا ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

کراچی ایئرپورٹ پر پان، نسوار اور گٹکے کے استعمال پر پابندی

انڈیا: سڑکوں کے قریب شراب کی فروخت پر پابندی

صنوبر کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہسپتال نہیں جا پارہی تھیں۔ انھوں نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا اور صرف دوائی اور جوس پر گذارہ تھا اور دو روز قبل ان کا انتقال ہوگیا اور منگل کو تدفین کر دی گئی۔

صنوبر کے وکیل ایڈووکیٹ مزمل ممتاز کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم کے باوجود صنوبر کو علاج کی سہولت فراہم نہیں کی گئی اور اسی دوران ان کی موت واقع ہوگئی۔

انھوں نے بتایا کہ مارچ میں کیس کی سماعت ہونی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے باعث ایسا نہ ہو سکا اور وہ آئندہ سماعت پر عدالت کو صورتحال سے آگاہ کریں گے۔

دوسری جانب صنوبر کے علاج کے حوالے محکمہ صحت کے افسر نے وضاحت دی تھی کہ سول ہسپتال میں ان کے مطلوبہ علاج کی سہولت موجود ہے وہاں رابطہ کریں، انھیں مفت صحت کی سہولت فراہم کی جائیگی۔

اس کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل نے بھی یقین دہائی کرائی تھی کہ محکمہ اوقاف اور زکوات کی جانب سے مالی مدد کی جائیگی اور اس کا عدالت کے تحریری فیصلے میں ذکر بھی موجود ہے۔

صنوبر کون تھیں؟

کراچی

کورنگی کی ایک غریب بستی کی 24 سالہ صنوبر نے چند سال قبل ایک ڈینم فیکٹری میں ملازمت اختیار کی تھی۔

ان کی ایک بوڑھی والدہ، بڑی بہن اور ایک بھائی ہیں۔ بہن شادی شدہ ہیں جبکہ بھائی الگ رہتے ہیں وہ ماں کے ساتھ کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتی تھیں اورگھر چلانے کے لیے یہ ملازمت اختیار کی تھی۔

ان کے وکیل ایڈووکیٹ مزمل ممتاز نے گٹکے اور چبانے وال ی تمباکو کی دیگر اقسام کے خلاف پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا، جس کی وجہ ان کے دوست تھے جو منہ کے کینسر میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوگئے تھے۔

صنوبر نے بھی ایڈووکیٹ مزمل سے رابطہ کیا جس کے بعد وہ بھی مدعی اور متاثر فریق بن گئی۔

مزمل ممتاز کے مطابق وہ نوجوان نسل کو بچانا چاہتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ صنوبر سے قبل تین اور افراد، نسیم حیدر، وسیم مسیح، اور ندیم بھی عدالت سے رجوع کرچکے تھے جو تمام منہ کے کینسر کا شکار ہوئے اور بعد میں فوت ہوگئے۔

صنوبر کی عدالتی درخواست میں کیا تھا؟

پان

صنوبر نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ گٹکے کی مختلف ناموں کے ساتھ بڑے پیمانے پر تیاری کی جاتی ہے۔

ان میں جانور کا خشک خون، چھپکلی کا خشک پاؤڈر، مضر صحت کیمیکلز، چونا، غیر معیاری چھالیہ اور کتھا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اقسام کے گٹکے کینسر کی وجہ بن رہے ہیں جس کا انجام موت ہے۔

صنوبر کی درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ گٹکے کی تیاری، فروخت اور ترسیل کے ساتھ اس کے خام مال کی خریدری پر بھی پابندی عائد کی جائے اور فیکٹری میں مزدوروں کو گٹکے کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے۔

صنوبر نے اپنی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کینسر کی وجہ سے کھانا پی نہیں سکتیں، کام پر نہیں جاسکتی جس وجہ سے وہ گھر کے اخراجات نہ اٹھا پا رہی ہیں۔

انھوں نے علاج پر تمام وسائل اور اثاثے لگا دیے اب مزید علاج کے لیے ان کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں بچا لہذا بیت المال کو ہدایت کی جائے کہ ان کی مدد کرے۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے آئینی درخواست کے ساتھ صنوبر کی تصویر بھی لگائی گئی تھی جس میں کینسر کا زخم ان کے منہ کے اندر اور باہر پھیل چکا تھا۔

ایک سماعت کے موقعے پر ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے تھے کہ گٹکا کھانے سے خطرناک کینسر پھیل رہا ہے، درخواست گزار خاتون کی تصاویر بھی نہیں دیکھ سکتے۔

صنوبر کی درخواست پر سماعت کے دوران محکمہ صحت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ کراچی میں گذشتہ سال سرکاری اور بڑے نجی ہسپتالوں میں منہ کے کینسر کے 4780 مریض لائے گئے تھے۔

جناح ہسپتال کے ڈاکٹر غلام حیدر نے عدالت کو بتایا تھا کہ منہ کے کینسر کے شکار مریضوں کی فہرست میں کالج اور اسکول کے طلبا کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں میں کام کرنے والے نوجوان مزدور بھی شامل ہوتے ہیں۔

صوبہ سندھ میں گٹکے، مین پوری کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟

سندھ میں ماوے، گٹکے اور مین پوری کی فروخت اور استعمال پر پابندی ہے۔ سندھ اسمبلی سے گذشتہ سال منظور کیے گئے قانون کے مطابق ماوا ، گٹکا اور مین پوری بنانے اور بیچنے والوں کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔

اس کے علاوہ گٹکے کا استعمال اور فروخت عوامی مقامات کالجز اسکول اور اسپتالوں میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔

قانون کے مطابق گٹکا کھانے والے کو چھ سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ہوگا۔ مزید یہ کہ گٹکے کی تلاش میں بغیر وارنٹ کسی جگہ چھاپہ مارا جاسکتا ہے۔

اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد سندھ پولیس نے کراچی سمیت کئی شہروں میں گٹکے کی فروخت اور تیار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔

قانون کے باوجود ان اشیا کی تیاری اور فروخت کیوں جاری ہے؟

عدالت میں سماعت کے دوران ایڈووکیٹ مزمل ممتاز نے دلائل دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پولیس پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 336 کے تحت مقدمہ درج کر رہی ہے جو ایک قابل ضمانت جرم ہے اور جس کی وجہ سے گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والے جلدی جیلوں سے باہر آکر آرام سے دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں۔

کورنگی میں صنعت کاروں کی تنظیم کاٹی کے جنرل سیکریٹری نے عدالت کو بتایا تھا کہ گٹکا اور ماوا کے استعمال اور فروخت پر پابندی کے لیے تمام فیکٹریوں کو سرکلر جاری کردیا ہے۔

عدالت نے سندھ حکومت کو گٹکے اور مین پوری سے متعلق آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم جاری کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp