اس مرتبہ نیب انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی


میں نے ایک مرتبہ اخبار میں خبر دی کہ ”باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس مرتبہ نیب انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی۔“ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ مشرف دور میں نیب کے سربراہ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں لکھے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”دو ہزار آٹھ کے انتخابات ہونے کا وقت قریب تھا انتخابات میں نیب کو استعمال کرنے کا ارداہ نظر آ رہا تھا۔ ان دنوں حکومت نے مجھ سے ان سیاستدانوں کے نام مانگے جن کے خلاف تفتیش چل رہی تھی۔

میں نے نام دینے سے معذرت کر لی کیونکہ مجھے علم تھا کہ سیاسی سودے بازی کے لیے نام مانگے جا رہے ہیں۔ مجھ پر کافی دباؤ رہا جب کہیں سے دال گلتی نظر نہ آئی تو ایک پارلیمنٹری کمیٹی بنا کر مجھے سرکاری خط لکھوایا گیا کہ یہ نام پارلیمنٹ کو چاہیے. میں نے لکھ کر دیا کہ نیب نام دینے سے قاصر ہے۔ پھر مجھے سمجھایا گیا کہ تم سیدھے فوجی ہو پارلیمینٹ کی اتھارٹی کو سمجھتے نہیں اپنے لیے مشکل کھڑی کر رہے ہو۔ بہرحال میں نے نام نہیں دینے تھے انھیں کہا کہ اگر سپریم کورٹ مجھے کہے تو میں نام دوں گا بصورت دیگر نہیں“۔

گزشتہ روز پرنٹ میڈیا کے پہلے صفحے پر خبر چھپی ہوئی تھی کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے چوہدری برادران نے نیب کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ نیب سیاسی انجینرنگ کرتی ہے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں جس وقت حکومت نیب سے نام مانگ رہی تھی اس وقت مرکز میں مشرف صدر اور شوکت عزیز وزیراعظم جبکہ پنجاب میں چوہدری پرویز الہی وزیراعلیٰ تھے۔ کیا اس وقت وہ اس سے بے خبر تھے کہ نیب کو بطور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب ہے کہ بالکل نہیں وہ اس سے بخوبی اگاہ تھے مگر اس وقت وہ اقتدار میں تھے اور اپنے سیاسی مخالفین کو بوساطت نیب ”رگڑا“ دے کر اپنی سیاسی جماعت ق لیگ میں شامل کرنا چاہتے تھے تاکہ اگلے پانچ سال بھی وہ سیاہ و سفید کے مالک رہیں۔

کسی کو برا لگے یا اچھا بات مگر سچ ہے کہ ہر دور کے طالع آزماؤں نے سیاستدانوں کو سیاست کے میدان سے نکال باہر کرنے کے لیے کبھی ”پروڈا“ ”ایبڈو“ اور ”نیب“ جیسے کالے قوانین بنائے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ جنوری 1949 میں حکومت پاکستان نے ایک ایسا قانون نافذ کیا تھا جسے عرف عام میں پروڈا کہا جاتا تھا۔ اس قانون کی زد میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ایسے وزیر، نائب وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری آتے تھے جو جانبداری، اقربا پروری اور دیدہ دانستہ بدانتظامی کے مرتکب ہو رہے تھے۔

یہ قانون سیاسی عہدیداران کے سر پر ایک مستقل شمشیر برہنہ کی طرح آویزاں ہو گیا۔ کیونکہ ان پر بدعنوانی کے الزامات لگا کر انکوائریاں شروع کروانا ایکٹ کی رو سے ہر کس و ناکس کی دسترس میں دے دیا گیا تھا۔ اگر پانچ افراد ایک ایک ہزار روپے چندہ جمع کر کے پانچ ہزار کی رقم کے ساتھ کسی مرکزی یا صوبائی وزیر کے خلاف الزامات لگا دیں تو اسے انتہائی آسانی کے ساتھ ”پروڈا“ کی صلیب پر لٹکایا جا سکتا تھا۔ الزام ثابت ہونے پر ملزم کو دس سال سیاست سے آؤٹ کر دیا جاتا تھا۔

ایسا ہی ایک اور قانون ایوب خان نے نافذ کیا جسے ایبڈو کے نام سے شہرت ملی۔ یہ قانون بھی چودہ اگست 1947 سے نافذالعمل قرار دیا گیا تاکہ نئے اور پرانے سب سیاستدان اس کے پھندے میں جکڑے رہیں۔ اس قانون کا اطلاق ان سب افراد پر ہوتا تھا جو کسی سیاسی عہدے پر رہے ہوں یا کسی منتخب شدہ اسمبلی کے رکن بنے ہوں۔ اس نام نہاد قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو چھ برس تک سیاست سے کنارہ کش رہنے کی سزا ملتی تھی۔ اگر کوئی عدالت میں صفائی نہ پیش کرنا چاہتے ہوں تو وہ رضاکارانہ چھ سال کے لیے سیاست سے دست بردار ہو کر گلو خلاصی کروا سکتا تھا۔

اس قانون کے تحت 98 ممتاز سیاست دانوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی۔ ان میں سے ستر نے رضاکارانہ سیاست سے توبہ کر کے اپنی جان چھڑائی۔ ان میں میاں ممتاز دولتانہ، مسٹر محمد ایوب کھوڑو اور خان عبدالقیوم خان شامل تھے۔ جن سیاستدانوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی اور جب میں نے ان بلند وبالا پہاڑوں کو کھود کھود کر دیکھا تو ان میں سے بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی ایسی چھوٹی چھوٹی چوہیاں برآمد ہوئی جو انتہائی بے وقعت اور بے ضرر تھی۔

ان بدعنوانیوں میں سرکاری ٹیلی فون اور سٹاف کار کا بے جا استعمال، اپنے انتخابی حلقوں میں ترجیحی طور پر سڑکوں، سکولوں یا ڈسپنسری کی تعمیر، انتخاب کے وقت دھاندلی کے بلاثبوت الزامات وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ ایبڈو اگر حرکت میں نہیں آیا تو گندھارا اسٹیٹ کے خلاف نہیں آیا کیونکہ وہاں جاتے ہوئے ان کے پر جلتے تھے۔

نیب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جموری حکومتوں نے نیب قوانین بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی پیپلزپارٹی اٹھارہویں آئینی ترمیم لائی تو نیب قوانین کو بھی بدلا جا سکتا تھا۔ مگر وہ کیوں بدلتے وہ اقتدار میں تھے، ان کے بھی سیاسی مخالفین تھے۔ یہی کام بعد میں ن لیگ نے اقتدار میں آ کر کیا۔ انھیں ہوش اس وقت آیا جب وہ خود نیب کے شکنجے میں آئے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ سوائے الزامات کے نیب ابھی تک عدالتوں میں کچھ ثابت نہیں کر سکی۔ ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے خلاف کیس بنایا گیا تو بے ضابطگیوں کے خلاف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے خلاف نیب ابھی تک ریفرنس ہی نہیں دائر کر سکی۔ نیب بھی کتنا کمال کا ادارہ ہے کہ سیاست دانوں کے خلاف شکنجہ کستا ہے مگر کچھ اور طاقتوں کے خلاف تحقیقات کرنے سے اس کے پر جلتے ہیں۔

احسن اقبال تو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سے استدعا کر چکے ہیں کہ نیب کو حکم دیا جائے کہ وہ کرتار پور راہداری کے خلاف بھی تحقیقات کریں تاکہ قوم کو حقائق معلوم ہوں شکنجہ صرف سیاستدانوں کے خلاف ہی کیوں؟ چوہدری برادران نیب کے خلاف عدالت تو گئے اور مقدمہ رکھا کہ نیب پولٹیکل انجینئرنگ کرتی ہے کاش وہ عدالت کے سامنے مقدمہ رکھتے کہ نیب کو حکم دیا جائے کہ بے لاگ احتساب کرنا ہے تو پھر جمع تفریق کے بغیر سب کا کیا جائے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments